Posts

Showing posts from 2016

اسیں لکھہ نمازاں نیتیاں، اسیں سجدے کیتے لکھ

اسیں لکھہ نمازاں نیتیاں، اسیں سجدے کیتے لکھ کدی ٹبیاں ریتاں رولیاں، کدی گلیاں دے وِچ ککھ اسیں پکّھو وِچھڑے ڈار توں، اسیں اپنڑیں آپ توں وکھ اسیں وِیکھیا دل مخلوق دا، دل بُوہے بُوہے رکھ اسیں راتاں کٹیاں جاگ کے، لگ بَاریاں نال کَھلو ساڈی اکھیں رَستیاں ساڑیاں، دل دِتا درد پرو ساڈے ساہ وچ صبر دی چاشنی، ساڈی رگاں وچ خَشبو ساتھوں ہار کے ساڈے حوصلے، پے کندھاں نَپ نَپ رو اسیں گبھرو سکدے شہر دے، ساڈے خاباں نال وداں اسیں خالی کُھوکھے ذات دے، سانو چُنجاں مارن کاں اسیں موسم کچے عشق دے، ساڈی دُھپ بنے نہ چَھاں ساڈے ماتھے بھرے لکیر دے، ساڈی قسمت مُول نہ تھاں اسیں مُجرم عشق دے جرم دے، اسیں سُفنے لیے اُڈیک ساتھے لگن روز عدالتاں ،سانو پے جاے روز تریک نِت آساں لا لا بیٹھئے، نِت دل تے ماریے لیک کدی چِھکے چَن آسمان تے، کدی مِٹی لوے دَھرِیک اسیں جمدے نال دے گھابرے، اسیں قسمت نال خفا کدی پتھراں دے وچ کھیڈ دے، کدی ٹردے ڈھور اڈا اسیں بھولے وانگ کبوتراں، اسیں پاگل وانگ ہوا اسیں اپنے آپ عبادتی .....اسیں اپنے آپ خدا (فرحت عباٗس)

Halliday resnick and krane 5th edition vol 1

Image
Download this Book

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاۂ آئینہ ساز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں....

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں ملتا ہے کہاں خوشہٰ گندم کہ جلاؤں شاہین کا ہے گنبدشاہی پہ بسیرا کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں ہر داڑھی میں تنکا ہے،ہر ایک آنکھ میں شہتیر مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر توحید کی تلوارسے خالی ہیں نیامیں اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں شاہیں کا جہاں آج گرگس کا جہاں ہے ملتی ہوئی ملاّ سے مجاہد کی اذاں ہے مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے،لیکن دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے وہ سجدہ

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں..

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں.. اک روشن تاره دکهتا ہو.. جب ريت كے ذرے زرے ميں .. کوئی نام ادهورا لکھتا ہو.. جب کالى چادر اھوڑ ے وہ.. کسی درگاہ پہ کبھی رکتا ہو.. جب خالی خالی نظروں سے.. رنگوں پہ انگلی رکھتا ہو____!! تم ايسے شخص کی سنگت ميں.. سورج کی اجلی رنگت ميں.. اک منت مانگ کے دريا ميں.. دو بوند بہانا چاندی کے.. اک پھول کھلے گا پانی ميں.. کوئ راز کھلے گا سينے میں____!! جب مڑ کے دنيا ديکھو گے.. وہ شخص کہیں کھو جاے گا.. کہیں چاند کی پھيکی جھالر ميں.. .کہیں ريت کے ذرے ذرے ميں....!!!!

ابھی ہیں خواب آنکھوں میں ،ابھی تعبیر زندہ ہے

ابھی ہیں خواب آنکھوں میں ،ابھی تعبیر زندہ ہے ابھی دل کے صنم خانے میں اِک تصویر زندہ ہے تڑپتا ہے دلِ وحشی ابھی غم کے شکنجے میں ابھی تو پنجہِ شہباز میں ،نخچیر زندہ ہے ترے الفاظ سوچوں بھی تو یاد آتے نہیں مجھ کو ترے لہجے سے جو دل پر لگا ،وہ تیر زندہ ہے سُخن آثار لمحوں کو جو پہچانا ،تو یہ جانا انہیں لمحوں میں لکھے لفظ کی تاثیر زندہ ہے جو دھڑکن بن کے دھڑکی ہے،نئی صدیوں کے سینے میں کُتب خانوں کے شیلفوں میں ،وہی تحریر زندہ ہے نہ کُچلو لفظ کی حُرمت کہ کل دنیا دُھائی دے مُصنف مر گیا ،اس کی مگر تقصیر زندہ ہے ابھی آہ و فغاں کی ریت ہے، اشعار میں جاری ابھی شعروسُخن کی وادیوں میں ،مؔیر زندہ ہے تماشا گاہِ دنیا میں کیا ،رقصِ جنوں برسوں مگر اب تک ہمارے پاؤں میں زنجیر زندہ ہے یہ دیمک وقت کی ساری کتابیں چاٹ لیتی ہے مگر اِک نسخہِ قُرآن کی توقیر زندہ ہے کوئی وُقعت ستارے کی نہیں ماہتاب کے آگے مقابل ہو اگر تقدیر ،کب تدبیر زندہ ہے سُنا جو شور و غوغا نصف شب ،تو ہنس کے فرمایا دمِ عشاق سے ہی نالہِ شب گیر زندہ ہے بجائے بانسری کے فون ہے رانجھے کے ہاتھوں میں ورق پر فیس بُک کے ،دورِ نَو کی ہیر زندہ ہے امانت ہے نئی

تو کبھی دیکھ تو روتے ہوئے آ کر مجھ کو

تو کبھی دیکھ تو روتے ہوئے آ کر مجھ کو روکنا پڑتا ہے آنکھوں سے سمندر مجھ کو اس میں آوارہ مزاجی کا کوئی دخل نہیں دشت و صحرا میں پھراتا ہے مقدر مجھ کو ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا مسافر ہوں میں ہاں نگل جائے گا ایک روز سمندر مجھ کو اس سے بڑھ کر مری توہینِ انا کیا ہوگی اب گدا گر بھی سمجھتے ہیں گدا گر مجھ کو زخم چہرے پہ، لہو آنکھوں میں، سینہ چھلنی زندگی اب تو اڑھا دے کوئی چادر مجھ کو میری آنکھوں کو وہ بینائی عطا کر مولیٰ ایک آنسو بھی نظر آئے سمندر مجھ کو کوئی اس بات کو مانے کہ نہ مانے لیکن چاند لگتا ہے ترے ماتھے کا جھومر مجھ کو دکھ تو یہ ہے مرا دشمن ہی نہیں ہے کوئی یہ مرے بھائی ہیں کہتے ہیں جو بابر مجھ کو مجھ سے آنگن کا اندھیرا بھی نہیں مٹ پایا اور دنیا ہے کہ کہتی ہے منور مجھ کو

وہ بھی خائف نہیں تختہءِ دار سے

وہ بھی خائف نہیں تختہءِ دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو جہل کی رات سے ًمیں نہیں مانتا، میں نہیں‌جانتا تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا دیپ جس کا محلات میں ہی جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

کہیں ملے تو اس کو کہنا

کہیں ملے تو اس کو کہنا کہیں ملے تو اس کو کہنا فصیلِ نفرت گرا رھا ھوں گئے دنوں کو بُھلا رھا ھوں وہ اپنے وعدے سے پھر گیا ھے میں اپنا وعدہ نبھا رھا ھوں کہیں ملے تو اس کو کہنا تنہا ساون بیتا چکا ھوں میں سارے ارماں جلا چکا ھوں جو شعلے بھڑکتے تھے خواہشوں کے وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ھوں کہیں ملے تو اس کو کہنا نہ دل میں کوئی ملال رکھے ہمیشہ اپنا خیال رکھے تمام غم اپنے مجھ کو دے کے وہ میری خوشیاں سنبھال رکھے

اسلام عليكم!!! ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔

Image
اسلام عليكم!!! ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﻩ ﻫﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺑﮭﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ’ ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ ‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﺗﮯ، ﺟﻬﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﻪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﻩ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﻪ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﺎ ،ﺗﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ. ﮐﺘﻨﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ ﮐﮭﭗ ﮔﺌے. ﺍﺱ ﺩﻓﻌﻪ ﺷﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻟﮓ ﺭﻫﺎ ﺗﮭﺎ، ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼ ،ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻭﻩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺑﮭﯽ۔ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮩﺎﮞ ﮔﯿﺎ، ﺗﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﻫﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ، ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ. ﯾﻪ ﺳﻨﺘﮯ ﻫﯽﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﻪ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻫﻮﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤ

فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم

فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم ہمارے شہر میں اُترا کمال کا موسم وہ اِک دُعا! جو مِری نامُراد لوٹ آئی زباں سے رُوٹھ گیا پھر سوال کا موسم بہت دِنوں سے مِرے ذہن کے دریچوں میں ! ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم جو بے یقیں ہوں بہاریں، اُجڑ بھی سکتی ہیں تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم محبتیں بھی تِری دُھوپ چھاؤں جیسی ہیں کبھی یہ ہجر، کبھی یہ وصال کا موسم کوئی مِلا ہی نہیں جس کو سونپتے، مُحسن ہم اپنے خواب کی خوشبو، خیال کا موسم ......!

جاپانی سب سے زیادہ عزت پاکستانیوں کی کرتے ہیں, بزنس کمیونٹی میں بھی وہاں پاکستانی تاجروں کو

جاپانی سب سے زیادہ عزت پاکستانیوں کی کرتے ہیں, بزنس کمیونٹی میں بھی وہاں پاکستانی تاجروں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے,پاکستانی تاجر وہاں استعمال شدہ گاڑیوں کے سب بڑے خریدار ہیں اور ان کی بہت بہترین ساکھ ہے اس کاروبار میں, ہر نیلامی میں پاکستانی شامل ہوتے ہیں اور پاکستانیوں کو بغیر زر ضمانت بولی میں حصہ لینے کی اجازت ہے کیونکہ پاکستانی زبان کے پکے مانے جاتے ہیں, اب کچھ اس بارے اوریا مقبول جان کی زبانی, جب جاپان میں سونامی آیا۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی دو جہاز بھیجے اور اپنے شہریوں کو لے گیا‘ لیکن آفت کی اس گھڑی میں پاکستانی وہ واحد قوم تھی جو تھویاما کے برف پوش علاقوں اور ٹوکیو کی گنجان آباد بستیوں سے دیوانہ وار سامانِ خورو نوش لے کر سونامی کے علاقوں میں جا پہنچے۔ جاپانی گرم گرم کھانا پسند کرتے ہیں۔ وہ حیران رہ گئے‘ یہ کیسی قوم ہے‘ اپنے ساتھ کھانا پکانے کا سامان لے کر آئی ہے اور ہمیں گرم گرم کھانا پکا کر کھلا رہی ہے! وہ جگہیں جہاں ان کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ ہوا تھا اور جاپانی بھی تابکاری کے ڈر سے نہیں جاتے

محبت نام ہے میرا

محبت نام ہے میرا اگر چاہو گئے تم مجھ کو تمھاری سانس سے پہلے تمہاری جان بن جاؤں اگر دیکھو گئے تم مجھ کو تمہاری آنکھ سے پہلے تمھارے خواب بن جاؤں اگر سوچو گئے تم مجھ کو تمھارے پاؤں سے پہلے تمہاری راہ بن جاؤں محبت نام ہے میرا . مجھے تم سوچ کے دیکھو . . . !

ایک سمجھدار خاوند کی اپنی بیوی کو نصیحت

Image
ایک سمجھدار خاوند کی اپنی بیوی کو نصیحت 🌹ایک خاوند نے اپنی بیوی کو پہلی ملاقات میں یہ نصیحت کی۔ کہ چار باتوں کا خیال رکھنا: 🌹1......پہلی بات یہ کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو بیوی کے طور پر پسند کیا۔ اگر آپ مجھے اچھی نہ لگتیں تو میں نکاح کے ذریعے آپ کو گھر ہی نہ لاتا۔ آپ کو بیوی بنا کر گھر لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے تا ہم میں انسان ہوں فرشتہ نہیں ہوں اگر کسی وقت میں غلطی کر بیٹھوں تو تم اس سے چشم پوشی کر لینا۔ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دینا۔ 🌹2.....اور دوسری بات یہ کہ مجھے ڈھول کی طرح نہ بجانا۔ بیوی نے کہا، کیا مطلب؟ اس نے کہا جب بالفرض اگر میں غصے میں ہوں تو میرے سامنے اس وقت جواب نہ دینا۔ مرد غصے میں جب کچھ کہہ رہا ہو اور آگے سے عورت کی بھی زبان چل رہی ہو تو یہ چیز بہت خطرناک ہوتی ہے۔ اگر مرد غصے میں ہے۔ تو عورت اوائڈ کر جائے اور بلفرض عورت غصے میں ہے تو مرد اوائڈ کر جائے۔ دونوں طرف سے ایک وقت میں غصہ آ جانا یوں ہے کہ رسی کو دونوں طرف سے کھینچنے والی بات ہے۔ ایک طرف سے رسی کو کھینچیں اور دوسری طرف سے ڈھیلا چھوڑ دیں تو وہ نہیں ٹوٹتی اگر

جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے

جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے میں نے نظروں کی طرح سر بھی جھکا رکھا ہے برتنو!آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو میں نے دھو دھا کے تمہیں کتنا سجا رکھا ہے پہلے بیلن نے بنایا میرے سر پر گومڑ اور چمٹے نے میرا گال سجا رکھا ہے سارے کپڑے تو جلا ڈالے میری بیگم نے زیب تن کرنے کو بنیان پھٹا رکھا ہے اے کنوارو! یونہی آباد رہو شاد رہو ہم کو بیگم نے تو سولی پر چڑھا رکھا ہے وہی دنیا میں مقدر کا سکندر ٹہرا جس نے خود کو یہاں شادی سے بچا رکھا ہے حق نسواں کی جو لیڈر ہیں بتائیں تو زرا کس نے سرتاج کو جوتی پر اٹھا رکھا ہے روز لیتی ہے تلاشی وہ پولیس کی مانند پوچھتی ہے کہاں پیسوں کو چھپا رکھا ہے پی جا اس مد کی تلخی کو بھی ہنس کے اے شوہر مار کھانے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے ن م

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی! تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی! مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی! شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی! عشق کی تیغِ جگر دار اُڑا لی کس نے؟ عِلم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی! سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات ہو نہ روشن، تو سخن مرگِ دوام اے ساقی! تو میری رات کو مہتاب سے نہ محروم رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی! علامہ اقبالؔ

جن، بیوی اور چِلا

جن، بیوی اور چِلا ****************** ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺑﮩﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﺗﮭﮯ..ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ.. ﮐﺎﻓﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﮦ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.. ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺟِﻦ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ .. ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻣﻼ ﺟﻮ ﻋﻤﻠﯿﺎﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ.. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﺮﺏ ﻋﻤﻞ ﺑﺘﺎﯾﺎ.. ﻋﻤﻞ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﺎ.. ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﻋﻤﻞ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮨﺎ.. ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭﺍﺅﻧﯽ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﻧﻈﺮﺁﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ.. ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ.. ﻣﯿﮟ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﻓﻨﺎﮎ ﻧﺴﻮﺍﻧﯽ ﺁﻭﺍﺯﺁﺋﯽ: ''ﻣُﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ، ﻣﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﮉﺭ ﻓﺮﯾﺞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﻻﺋﯿﮟ ".. ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮐﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﻤﻞ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ.. ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﻻﺕ ﮨﻮﮞ، ﺣﺼﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ.. ! ﺁﻭﺍﺯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺁﺋﯽ.. ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﮔﯿﺎ.. ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭼﮍﯾﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺩﮬﺎﺭﮮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯽ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ.. ﻣﯿﮟ ﺑﻼﺧﻮﻑ ﻭِﺭﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺗﮭﺎ.. ﻭﮦ ﭼﮍﯾﻞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﯽ.. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭِﺭﺩ ﺗﯿﺰ ﮐﺮﺩﯾﺎ.. ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﻣﯿﮟ

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

تم میرے بچے کو کیوں ڈانٹتے ہو..؟؟؟

تم میرے بچے کو کیوں ڈانٹتے ہو..؟؟؟ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تها،کالج کے بعد جب یونیورسٹی میں داخل ہوا تو باپ کی معمولی تنخواہ اس کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر تهی،ماں کو وراثت میں 6مرلے کا ایک پلاٹ ملا تھا، اس کے کاغذات اپنے بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے کہا میرا بچہ پڑھ لکھ کر افسر بنے گا تو ایسے کئی پلاٹ خریدے گا،چل میرا بچہ یہ پلاٹ بیچ کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر،اس طرح اس کی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا،یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اسے اچھی سی جاب بھی ملی،یوں خاندان کے برے دن ختم ہوگئے.. چند عرصے بعد ماں باپ کے لئے یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب "پسند کی شادی" کے بعد اس نے اپنے ماں باپ کو باپ کی کل پنشن یعنی 8000روپے کے رحم و کرم پہ چهوڑ کر اپنا الگ گھر بسالیا،اس کے اپنے گھر میں گاڑی سے لے کر ائیر کنڈیشن تک کی ہر سہولت میسر تھی جب کہ دوسری جانب اس کی ماں بیماری کی وجہ سے بستر سے لگ کر رہ گئی تھی،باپ روزانہ آدھا گهنٹہ پیدل چل کر حکیم صاحب سے اس کے لئے تازہ دوا لے کر آتا،جب کہ باقی وقت لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دیسی پنکھے سے اپنی بیوی کے پسینے پوچھنے کی ناکام کوششوں میں مصروف رہتا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟ یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

دن گزر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں

دن گزر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں زخم بھر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں کوچ کر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں ہم مکر جاینگے ، سرکار کوئی بات نہیں رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے ہنس کے مر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں نکل آئے ہیں عدم سے تو ججھکنا کیسا در بدر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں

ایک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے

ایک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے آغاز عاشقی کا مزا آپ جانئے! انجام عاشقی کا مزا ہم سے پوچھئے ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپکی طرح ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھئے وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھئے جلتے دئیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھئے ہم توبہ کر کے مر گئے قبل اجل خمار توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھئے

ﺳُﻮﻟﯽ ﺍُﺗﮯ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ

Image
ﺳُﻮﻟﯽ ﺍُﺗﮯ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﺷﺎﻡ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻣﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﻣُﻨﮧ ﺗﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺪﺍ ﯾﺎﺩ ﺩِﻻﮞ ﻭﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﺷﻤّﻊ ﺩﺍ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﻧﮓ ﭘﺘﻨﮕﺎﮞ ﺳﮍﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧﺎﻝ ﺗﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮍﺩﺍ ﻧﻔﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻝ ﻟﮍﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺭُﻭ ﺑﻦ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺗَﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﻧﺎﮞ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺑﻠﯿﺲ ﺩﺍ ﮐﻢ ﺍﯾﮟ ﺳِﺮ ﭘﯿﺮﺍﮞ ﺗﮯ ﺩﮬﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﺟِﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﻧﻮﮞ ﯾﺎﺭﻭ ﯾﺎﺭ ﺩﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﮨﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ-

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں اور کیا جرم ہے ۔۔۔۔۔ پتا ہی نہیں سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں زندگی ۔۔۔۔۔۔ موت تیری منزل ہے دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں جس کے کارن فساد ہوتے ہیں اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

نِگاہِ لُطف مت اُٹھ ، خُوگرِ آلام رہنے دے

نِگاہِ لُطف مت اُٹھ ، خُوگرِ آلام رہنے دے ہمیں ناکام رہنا ہے، ہمیں ناکام رہنے دے کسی معصُوم پر بیداد کا اِلزام کیا معنی یہ وحشت خیز باتیں عشقِ بدانجام رہنے دے ابھی رہنے دے دل میں شوقِ شورِیدہ کے ہنگامے ابھی سر میں محبّت کا جنُونِ خام رہنے دے ابھی رہنے دے کچُھ دن لُطفِ نغمہ، مستئ صہبا ابھی یہ ساز رہنے دے، ابھی یہ جام رہنے دے کہاں تک حُسن بھی آخر کرے پاسِ وضع داری اگر یہ عشق خود ہی فرقِ خاص و عام رہنے بہ ایں رِندی، مجاز اک شاعرِ مزدور و دہقاں ہے اگر شہروں میں وہ بدنام ہے، بدنام رہنے دے

چاک پیراہنیِ گُل کو صبا جانتی ہے

چاک پیراہنیِ گُل کو صبا جانتی ہے مستیِ شوق کہاں بندِ قبا جانتی ہے ہم تو بدنامِ محبت تھے سو رُسوا ٹھہرے ناصحوں کو بھی مگر خلقِ خدا جانتی ہے کون طاقوں پہ رہا کون سرِ راہگزار شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے ہوس انعام سمجھتی ہے کرم کو تیرے اور محبت ہے کہ احساں کو سزا جانتی ہے

ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں

ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں کتنا سودائی ہوں، کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں مے چُھٹی، پر گاہے گاہے اب بھی بہرِ احترام دعوتِ آب و ہوا تسلیم کر لیتا ہوں میں بے وفا میں نے، محبّت سے کہا تھا آپ کو لیجیئے اب با وفا تسلیم کر لیتا ہوں میں جو اندھیرا تیری زلفوں کی طرح شاداب ہو اُس اندھیرے کو ضیا تسلیم کر لیتا ہوں میں جُرم تو کوئی نہیں سرزد ہوا مجھ سے حضور با وجود اِس کے سزا تسلیم کر لیتا ہوں میں جب بغیر اس کے نہ ہوتی ہو خلاصی اے عدم رہزنوں کو رہنما تسلیم کر لیتا ہوں میں

محے کو بےوفا سمجھ لیجئے

محے کو بےوفا سمجھ لیجئے جاودانی ادا سمجھ لیجئے میری خاموشئ مسلسل کو اِک مسلسل گِلہ سمجھ لیجئے آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا اُس کو میرا کہا سمجھ لیجئے جس گلی میں بھی آپ رہتے ہوں واں مجھے جا بہ جا سمجھ لیجئے آپ آ جایئے قریب مرے مجھ کو مجھ سے جُدا سمجھ لیجئے جو نہ پہنچائے آپ تک مجھ کو آپ اُسے واسطہ سمجھ لیجئے نہیں جب کوئی مدعا میرا کوئی تو مدعا سمجھ لیجئے جو کبھی حالِ حال میں نہ چلے اُس کو بادِ صبا سمجھ لیجئے جو کہیں بھی نہ ہو، کبھی بھی نہ ہو آپ اُس کو خدا سمجھ لیجئے
بادشاہ کا قیمتی موتی گم ھو گیا ، اس نے اعلان کیا کہ جو اسے ڈھونڈ لائے گا اسے اس اس انعام سے نوازا جائے گا ! سارے درباری سردار اور معززین تلاش میں لگ پڑے ،، دو دن کی جان مار تلاش کے بعد ایک درباری کو وہ موتی مل گیا، جبکہ باقی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ناکام رھے ! بادشاہ نے ڈھوندنے والے کو حسب وعدہ تمام انعامات سے نوازا اور اس کی محنت کی تعریف کی ! اس کے بعد بادشاہ دوسرے درباریوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کی محنت پر ان کے لیئے خیر کے کلمات کہے اور پھر ان کو بھی انعامات دیئے ! یہ منظر دیکھ کر اس درباری کو کہ جسے وہ موتی ملا تھا، کچھ اچھا نہیں لگا اور اس کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نظر آنے لگے ! بادشاہ جو یہ سب محسوس کر رھا تھا وہ اس درباری کی طرف متوجہ ھوا اور اس سے کہا کہ "میں نے موتی ڈھونڈنے والے سے جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق تمہیں نواز دیا اور اس میں کمی کوئی نہیں کی ! پھر میں سعی والوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کو نوازا اور تیرے حق میں سے کم کر کے نہیں دیا بلکہ اپنے خزانے سے دیا،، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کوشش کر کے بھی جن کو نہ ملا ان کو محروم کر دونگا ! موتی ایک تھا اور ایک کو

بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے

بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے واہ کیا کہنے بہت خوب دوبارہ ہو جائے رات بھر ہوتی رہے ٹوٹ کے دریا زاری یوں بغل گیر کنارے سے کنارا ہو جائے روز کرتا ہوں میں دنیا کے محلے میں خرام جانے کب کون سی چلمن سے اشارہ ہو جائے چاک سے ہو کے بھی صد چاک لیے پھرتا ہے جسم کی آخری خواہش ہے کہ گارا ہو جائے بد دعا مانگنے والے کی د عا کے صدقے ہر برا آدمی اللہ کو پیارا ہو جائے رزق تو خیر مری ثانوی ترجیح رہا عشق بھی اتنا کمایا کہ گزارا ہو جائے

وہ بات یہ ہے کہ....ہم ہیں سادات کہ قبیلے سے ساقی جام ذرا پرے رکھ

وہ بات یہ ہے کہ....ہم ہیں سادات کہ قبیلے سے ساقی جام ذرا پرے رکھ....! مرشد کہ منہ سے یہ الفاظ ابھی ٹھیک سے ادا نہیں ہوئے تھے کہ ساقی کراہ کہ بولا حضور آپ.... آپ سید ہو؟ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر تھوک اور آنسوں کہ مشترکہ گھونٹ نگلتے ہوئے آواز بلند ہوئی ہاں میں,...میں" سید" ہوں لیکن تم اب میری چاکری کرنے مت لگ جانا اور ناں ہی میری جی حضوری اگر کچھ کر سکتے ہو تو میرے لیے اتنا کرو کہ ایک تعویز لکھو اس پہ کچھ آیات پڑھ پھونکو اور اسے میرے گلے میں لٹکا ڈالو تاکہ میں اس کی محبت ہاں ہاں اسی طوائف کی محبت کو اپنے دل و دماغ سے نکال سکوں اور اپنے حسب و نصب کو پہچان سکوں........ایک دفعہ پھر سے خاموشی پوری محفل میں چھا گئی پھر ایک لمبا کش لیتے ہوئے خاموشی ٹوٹی اور وہ سید زادہ دھوئیں کی لمبی لمبی زلفوں میں سے چہرہ نکالتے ہوئے بولا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتا یا میں نے کبھی کوشش ناں کی ہو گی بہت دفعہ کی لیکن ہر بار میں ہی ہارا اور میرے اندر میری رگ رگ میں بسا ہوا عشق جیتا.....اب میں اکثر سوچتا کہ خود کی سانسوں کو اس پنجر سے آزاد کر ڈالوں پھر شاید اس طوائف کا اپناتے

اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی

اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی تنہا تھے مگر خود سے تو وحشت نہ ہُوئی تھی یہ دن ہیں کی یاروں کا بھروسا بھی نہیں ہے وہ دن تھے کہ دُشمن سے بھی نفرت نہ ہُوئی تھی اب سانس کا احساس بھی اِک بارِ گراں ہے خود اپنے خلاف ایسی بغاوت نہ ہُوئی تھی اُجڑے ہُوئے اس دِل کے ہر اِک زخم سے پوچھو اِس شہر میں کس کس سے محبت نہ ہُوئی تھی؟ اب تیرے قریب آ کے بھی کچھ سوچ رہا ہُوں پہلے تجھے کھو کر بھی ندامت نہ ہُوئی تھی ہر شام اُبھرتا تھا اِسی طور سے مہتاب لیکن دِل وحشی کی یہ حالت نہ ہُوئی تھی خوابوں کی ہَوا راس تھی جب تک مجھے محسن یوں جاگتے رہنا میری عادت نہ ہُوئی تھی
میں کیسی ہوں سبهی پُوچهتے رہتے ، کیوں مُجھ سے میں کیسی ہوں میں کیسے ان کو بتلاؤں ، کبهی تو مُجھ میں رعنائی دهڑکتی ہے اُداسی شام کی ، مُجھ سے گلے مِل کر تڑپتی ہے مِرے لفظوں میں غم پرچھائیاں بن کر اُترتے ہیں شکستہ خواب ڈهل کر میرے اَشکوں میں اُترتے ہیں مِرے جذبوں کی سچائی مُجهے اکثر رُلاتی ہے اُداسی بهی مِری آنکھوں کے گوشوں پر مچلتی ہے کبهی تو میری آنکھوں میں خوشی کے دیپ جلتے ہیں کبهی میرے لبوں پر اِک حسیں مُسکان ہوتی ہے انوکهے گیت ہوتے ہیں کبهی یونہی ، اچانک چُپ سی لگ جاتی ہے ، کیوں! مُجھکو کسی سے بات کرنے کو میں آمادہ نہیں ہوتی کبهی سادہ سے لفظوں میں ، بڑا اظہار کر جاؤں کبهی خود اپنے لفظوں میں اُلجھ کر میں ہی رہ جاؤں کبهی میں ٹوٹ کر بکھروں کبهی خود میں سمٹ جاؤں کبهی میں بے تحاشا بے وجہ ہی ہنس پڑوں ، ! کبهی بے بات ہی رودوں کبهی انجان راہوں پر اکیلے ہی نکل جاؤں کبهی منزل کو پا کر بهی میں خود منزل کو ٹهکراوں بهلا کیا روپ ہے ، میرا یہ کیسے میں بتلاؤں میں کیسی ہوں

ندا فاضلی کا ایک شعر ہے جو دین بیزاروں کو بڑا مرغوب ہے وہ یوں کہ

ندا فاضلی کا ایک شعر ہے جو دین بیزاروں کو بڑا مرغوب ہے وہ یوں کہ ... . گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یو کرلیں کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے ندا فاضلی کے شعر کو عرفان خالد نے اپنی طرز پر سوچا گھر سے مسجد ہے اگر دور تو پھر یوں کر لو کسی ركشہ، کسی ٹم ٹم کی سواری لے لو کوئی ٹانگہ ہی پکڑ لو ، کوئی لاری لے لو فاصلہ گر ہو کئی میل خدا کے گھر کا آمد و رفت کی قیمت بھی تو دے سکتے ہو سائیکل کوئی کرائے پہ بھی لے سکتے ہو میکدے کے لئے جب گھر سے نکل سکتے ہو ایک بوتل کی توقع پہ بہل سکتے ہو ’’تم چراغوں کی طرح شام سے جل سکتے ہو‘‘ تم کو مسجد کی طرف پاؤں بڑھانے میں ہے عذر جام ومینا کے لئے آگ پہ جل سکتے ہو پھر یہ مسجد میں نہ جانے کا فسانہ کیا ہے ؟ خانۂ رب سے تغافل کا بہانہ کیا ہے ؟ تم ارادہ تو کرو ، راستے گھٹ سکتے ہیں فاصلے بیچ میں جتنے ہیں سمٹ سکتے ہیں یہ بھی گر کر نہ سکو ، گھر کے کسی گوشے میں سجدۂ شکر بجاؤ ، تلاوت کرلو چھپ کے دنیا کی نگاہوں سے عبادت کرلو یہ جو بچوں کو ہنسانے کی تمنا ہے تمہیں اس فسانے کو بھی اک روز حقیقت کر لو پھینک دو جام و سبو ، ساغر و مینا اپنے اور روتے ہوئے بچوں سے محبت کر لو ا

ابا فرید الدین گنج شکر

ابا فرید الدین گنج شکر ------------------------- شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر برّصغیر میں چشتیہ سلسلے کے عظیم صوفی بزرگ ہیں۔ آپ کا مزار پاک پتن، پاکستان میں ہے۔ عظیم صوفی بزرگ اورشاعر بابا فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔ [1] آپکی ولادت 1173ء بمطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال1265ء بمطابق 666ھ میں ہوا ۔آپکا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والدمحترم قاضی جلال الدین ہیں ۔بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔ [2] آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کو پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ [3] کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔بعض روایات کے م

٭راز٭

٭راز٭ ------ ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا۔ اُسے کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا۔ ایک روز اُسکے وزیرِ خاص نے بادشاہ سے اِس راز کو جاننے کی ٹھان لی، حسب سابق بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر کا دھیان اِدھر اُدھر ہو جائے، لیکن اُس نے بھی جاننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا، آخر بادشاہ نے وزیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لیکن اُسے ایک شرط پر بتانے کی حامی بھری کہ وہ آگے کسی کو نہیں بتائے گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اُس نے شرط کی خلاف ورزی کی تو اُسے سخت سزا بھگتنا ہو گی۔ بادشاہ نے بتایا کہ، "اُس کے سر پر ایک سینگ ہے، اِسی لیے وہ اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے۔۔۔!" اِس بات کو کچھ دِن ہی ہوئے تھے کہ پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہے۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔ اُس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور شرط کی خلاف ورزی کی پاداش میں شاہی حکم صادر کیا کہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ وزیر بہت سمجھدار تھا، وہ جھٹ سے بولا، "باد

ﮈﮬﻮﻝ ﻣﻨﮕﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔

ﮈﮬﻮﻝ ﻣﻨﮕﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺧُﺸﯿﺎﮞ ﮈﮬﻮﻝ ﺩﯾﺎﮞ ، ﻣﮩﻨﺪﯼ ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧُﻮﮞ ﻻ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧُﻮﮞ ﻻ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺻﺒﺮ ﺩﺍ ﮔﮭُﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ، ﺗﯿﺮﯼ ﻏﺮﺽ ﻣِﭩﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺗﯿﺮﯼ ﻏﺮﺽ ﻣِﭩﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺭﻭﻧﮯ ﻋُﻤﺮﺍﮞ ﺩﮮ، ﮔﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﮔﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﮐﻔﻨﯽ ﻏُﺮﺑﺖ ﺩِﯼ ، ﺗﯿﺮﮮ ﺑﮭﺮﻡ ﺑﻨﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﮭﺮﻡ ﺑﻨﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺣﺴﺮﺕ ﻋُﻤﺮﺍﮞ ﺩِﯼ ، ﮨﺘﮭّﯿﮟ ﺍﺝ ﺩﻓﻨﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ
Image