Posts

Showing posts from October, 2016

ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﻧﮑﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ -

ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﻧﮑﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﻣﺮﺟﻬﺎ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮔﻠﺴﺘﺎﮞ ﺑﮩﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮑﯽ ﮔﺰﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﮨﻤﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﻼ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﮟ ﮨﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﺧﺎﻡ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺟﻮﺩ ﺑﮩﯽ ﺟﺐ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﺣﺎﻟﺖ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮔﻮﺍﻩ ﮨﯿﮟ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺷﺐ ﮔﺰﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﺍﺩﺍ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺉ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﻮ ﭘﺎﺭ ﺟﮕﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﮨﻢ ﺳﮯ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ﻣﻌﺎﻭﯾﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻗﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ***********

شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ

شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ.....!! "اے ماؤں، اپنے اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہو۔ چاہے کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو اُن کیلئے منہ سے خیر کے کلمے ہی نکالا کرو۔ اولاد کو لعن طعن، سب و شتم اور بد دعائیں دینے والی مائیں سُن لیں کہ والدین کی ہر دُعا و بد دُعا قبول کی جاتی ہے۔" یہ سب باتیں شیخ صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں اپنے بچپن کی باتیں دہراتے ہوئے فرمائیں۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ...!! ایک دفعہ ایک لڑکا ہوا کرتا تھا، اپنے ہم عُمر لڑکوں کی طرح شرارتی اور چھوٹی موٹی غلطیاں کرنے والا۔ مگر ایک دن شاید غلطی اور شرارت ایسی کر بیٹھا کہ اُسکی ماں کو طیش آگیا، غصے سے بھری ماں نے لڑکے کو کہا (غصے سے بپھر جانے والی مائیں الفاظ پر غور کریں) لڑکے کی ماں نے کہا؛ "چل بھاگ اِدھر سے، اللہ تجھے حرم شریف کا اِمام بنائے۔" "یہ بات بتاتے ہوئے شیخ صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے، ذرا ڈھارس بندھی تو رُندھی ہوئی آواز میں بولے؛ اے اُمت اِسلام، دیکھ لو وہ شرارتی لڑکا میں کھڑا ہوا ہوں تمہارے سامنے اِمام ِ کعبہ عبدالرحمٰن السدیس.." اللہ اَکبر، اگر وہ شرارتی لڑکا شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ صاحب بذ

ﺍﻭﮌﮪ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ،

ﺍﻭﮌﮪ ﻟﯽ ﮨﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ، ﮔﻔﺘﮕﻮ ﻧﮩﯿﮟ _____ ﮐﺮﻧﯽ ﺩﻝ ﮐﻮ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ، ﺁﺭﺯﻭ ______ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﮬﻮﻝ ﺑﮭﯽ ____ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ _____ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺗﺮﺍ _____ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻭٖﺿﻮ _____ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ ﺍﺏ ﯾﻘﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ _____ ﺩﻻﺅﮞ گا ﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺑﺮﻭ ______ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ

سارے مرنے والوں پر موت تو نہیں آتی

Image
سارے مرنے والوں پر موت تو نہیں آتی ہر کسی کے جینے کو زندگی نہیں کہتے زر پرست سورج کی تیز دھار کِرنوں کو تیز دھوپ کہتے ہیں روشنی نہیں کہتے فاصلے بتاتے ہیں رِشتہ کتنا گہرا ہے ساتھ کھانے پینے کو دوستی نہیں کہتے لفظ خود اُترتے ہیں ڈھونڈنے نہیں پڑتے قافیے ملانے کو شاعری نہیں کہتے

ﺟﺲ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ

ﺟﺲ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﮯ ﺣﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻨﺖ ﮨﮯ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﯾﮧ ﺳﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺩ ﮐﮯ ﻧﻮﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﺐ ﮈﮐﺎﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﮑﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺭﺏ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺭﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻃﺎﻕ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

مسئلہ کشمیر

Image
82ء میں جنرل ضیاء ایک کانفرنس میں شرکت کرنے انڈیا پہنچے ۔ اس کانفرس میں دنیا کے 80 ممالک کے سربراہان شریک تھے ۔ صدارت اندرا گاندھی کر رہی تھیں ۔ جنرل ضیاء نے اندرا گاندھی کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر اپنی تقریر میں کہا کہ " مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کے مطابق حل کرنا چاہئے ۔" ۔۔ جنرل کی یہ بات سن کر اندرا گاندھی اپنی صدارت کی نشست سے اٹھ کر چلی گئیں اور اپنی جگہ یاسر عرفات کو بیٹھا دیا۔ دوسرے دن پورے انڈین پریس کی 8 کالمی سرخی تھی کہ " صدر ضیاء نے کانفرنس میں مسئلہ کشمیر اٹھا دیا " ۔۔ کچھ نے لکھا کہ " دھماکہ کر دیا " کسی نے لکھا " بہت زیادتی کی " ۔۔ تین دن تک انڈین اخبارات ضیاء کے خلاف اور کشمیر کے حوالے سے سرخیوں اور اداریوں سے بھرے رہے ۔ تیسرے روز کانفرنس کے تشہیر کے شعبہ کے انچارج ایڈیشنل سیکٹری خارجہ مانی شنکر آئر نے بھارتی اخبارات کے اڈیٹروں کو بلایا اور کہا کہ " پلیز آپ لوگ جنرل ضیاء کا تذکرہ کرنا بند کر دیں ۔ آپ سارے جنرل صاحب کی مرضی کے مطابق ردعمل دے رہے ہیں جو وہ چاہتے ہیں اور دنیا کے 80 ممال

جو مِلے-------------------اِس میں کاٹ لیں گے ہم

جو مِلے-------------------اِس میں کاٹ لیں گے ہم تُھوڑی خُوشیاں تُھوڑے آنسو بانٹ لیں گے ہم

پہلے پہل اس سے میری گفتگو تھی بس،

پہلے پہل اس سے میری گفتگو تھی بس، پھر یوں ہوا کہ وہ میرے لہجے میں آگیا...!!

بزرگ آدمی یا بچے سے بحث یا بات کو طوالت دینےکا فائدہ نہیں ہوتا

بزرگ آدمی یا بچے سے بحث یا بات کو طوالت دینےکا فائدہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ بزرگ آدمی سے بات اس طرح کی جائے کہ جملے مختصر ہوں۔۔۔۔ اپنا موقف اس طرح پیش کریں کہ بزرگوں کو یہ نہ لگے، ان کی بات رد کی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ اوربات کواچھے طریقے سے نبٹا کرطوالت سے بچ جائیں۔۔۔۔۔۔ چہرے پر مسکراہٹ اور زبان میں نرمی ہو۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوربچے کی عمر کم ہے،ذہن ناپختہ ہے اور تجربہ خام ہے۔۔۔۔۔ اس لیے بچے پر اپنی بات سختی سے ٹھونسنے سے گریز کریں۔۔۔۔۔۔ پیار سے سمجھائیں، نرمی سے بات کریں۔۔۔۔ دوستانہ اندازمیں، مانوس کرکے بچے کو سمجھائیں۔۔۔۔۔ پھر آپ کی بات بھی اس پر اثر کرے گی اور وہ اس کو بخوشی قبول کرے گا۔۔۔۔۔ اگر بچہ آپ کی بات قبول نہیں کررہا تو انداز بدل کر دیکھیں۔۔۔۔۔ حکمت سے کام لیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بزرگوں کے معاملے میں یاد رکھیں کہ پرانی شاخیں ہمیشہ مضبوط ہوا کرتی ہیں، ان کو لچک دینا آسان کام نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ بچوں کے معاملے میں یاد رکھیں کہ نئی شاخیں ہمیشہ نازک ہوا کرتی ہیں، ان کی کانٹ چھانٹ احتیاط سے کرنی چاہیے۔۔۔۔۔ اور اپنے معامل

اداؤں کے تعویذ

اداؤں کے تعویذ ! شادی شدہ احباب توجہ فرمائیں یہ جو عورتیں تعویذ لینے آتی ہیں ناں...... کہ حضرت تعویذ دیں میرا خاوند میرے ساتھ ٹھیک نہیں تو مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے. حیرت کی بات ہے کہ یہ جوان العمر بیوی ہے اور اللہ تعالٰی نے اس کو عقل دی، سمجھ دی، تعلیم دی، شکل دی سب کچھ دیا اور یہ تعویذ مانگتی پھرتی ہے. یاد رکھنا عورت اگر نیکوکار سمجھدار ہو تو اس کی ہر ادا مرد کے لئے تعویذ ہوتی ہے. اللہ نے مرد کے دل میں عورت کی کشش ہی ایسی رکھ دی ہے، مرد کے دل میں عورت کی مقناطیسیت ہی ایسی رکھ دی ہے کہ عورت کی ہر ادا مرد کے لئے تعویذ ہوتی ہے تو اللہ نے تمھیں تو اداؤں کے تعویذ دیئے. باتوں کے تعویذ دیئے ان تعویذوں کو کیوں نہیں استعمال کرتیں. کاغذ کے تعویذوں کے پیچھے کیوں بھاگتی پھرتی ہو. نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ تھکا ہوا خاوند آتا ہے اور آگے سے بیوی بھی تھکی بیٹھی ہوتی ہے. تھکے ہوئے میاں بیوی ایک دوسرے سے کیسے فرحت پائیں گے. اہتمام کیجئے، بنیں سنوریں، فریش (تروتازہ) ہوا کریں جب خاوند آئے اور اس کے سامنے محبت پیار کی باتیں کیا کریں کھلے چہرے سےاس کا استقبال کیا کریں اور ایسے انداز اپنایا کریں کہ خاوند خوش ہو

علم میراث و ریاضی میں مہارت کا ایک عجیب واقعہ

٭ علم میراث و ریاضی میں مہارت کا ایک عجیب واقعہ۔٭ ------------------------------- عباسی خلیفہ مامون کے دربار میں ایک عورت نے آ کر فریاد کی کہ میرے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے،اس نے ترکے میں 600 اشرفیاں چھوڑی ہیں، لیکن مجھے صرف ایک اشرفی دی گئی ہے۔لہٰذا مجھے میرا حق دلایا جائے۔ مامون نے ذرا سکوت کیا اور دل ہی دل میں غور کیا،حساب لگایا اور کہا کہ تمہارا حصّہ ایک ہی اشرفی بنتا ہے۔عورت یہ بات سنکر حیران رہ گئی۔حاضرینِ دربار بھی تعجب کرنے لگے۔ایک عالم نے پوچھا:" کیوں اور کس طرح یہ ہو سکتا ہے؟" ماموں نے کہا:" متوفی کی دو بیٹیاں ہوں چھ سو میں دو تہائی یعنی چار سو اشرفیاں ان کا حق ہے۔ ایک والدہ اور ایک بیوہ ہو گی۔والدہ کا چھٹا حصّہ ہوتا ہے۔سو اشرفیاں والدہ کی ہوئیں۔ آٹھواں حصّہ بیوی کا ہوتا ہے۔پچھتر اشرفیاں بیوی کو ملیں،صرف پچیس اشرفیاں بچیں۔ متوفی کے بارہ بھائی ہوں گے۔یہ پچیس اشرفیاں بھائیوں اور ایک بہن میں تقسیم کی جائے گی۔بہن سے بھائی کا حصّہ دو چند ہوتا ہے۔ہر ایک بھائی کے حصّے میں دو اشرفیاں اور بہن کے حصے میں ایک اشرفی ہو گی۔" جب عورت سے دریافت کیا گیا تو اس نے بتایا:&

ایک بار بہت برف باری ہو رہی تھی

Image
ایک بار بہت برف باری ہو رہی تھی. کافی ٹھنڈ ہو گئی تھی. مُلا نصیرالدین کے دوستوں نے کہا کہ اس سردی میں تو کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور رات کا کوئی ایک لمحہ بھی باہر نہیں گزار سکتا. مُلا نصیرالدین نے کہا کہ میں رات گھر سےباہر کھلے آسمان کے نیچے گزاروں تو کیا تم میرے سب گھر والوں کی دعوت کرنے کو تیار ہو. سب دوستوں نے کہا کہ مُلا پاگل ہو گیا ہے بھلا ایسی سردی میں کون باہر رات گزار سکتا ہے. دوستوں نے کہا کہ اچھا موقع ہے مُلا اپنے آپ کو ہم سے زیادہ عقلمند سمجھتا ہے. چلو شرط لگا لیتے ہیں بیچارہ اپنی جان کے پیچھے پڑگیا ہے ..مُلا نے کہا کہ اگر میں شرط جیت گیا تو تم سب کو میرے گھر والوں کی دعوت کرنی ہو گی ورنہ میں تم سب کی دعوت کروں گا اگر شرط ہار گیا. دوستوں نے کہا ہمیں منظور ہے.آخر وہ رات بھی آ گئی ملا قمیض شلوار میں گھر سے باہر جا بیھٹا. سب دوست اسکو ایک بند کمرے کی کھڑکی سے جھانک کر دیکھ رہے تھے. مُلا ساری رات سردی میں ٹہڑتا رہا آخر کوصبح ہو گئی..اب تو دوست بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ ہم نہیں مان سکتے کہ ایسا ہو سکتا ہے. تم زندہ کیسے بچ سکتے ہو اس سردی میں تو ایک پل باہر نہیں رہا جا

خیر عید مبارک

روٹھی تو ھے بہار، خیر عید مبارک دامن ھے تار تار، خیر عید مبارک - دینے کو آپ واسطے چنتا رہا گلاب لے آئے آپ خار، خیر عید مبارک - میرے سخن کی چاشنی ہائے خراب کی ہو بدنصیب یار، خیر عید مبارک - جو جیت کے حصول کو کرتا رہا زیاں دے دی اُسی کو ہار، خیر عید مبارک - اشکوں میں ڈھونڈتی رہی دیدارِ سنگ من یه چشم اشک بار، خیر عید مبارک - قسمت میں گو فراق تھا، تھی جستجو ولے ھے یه فقط غبار، خیر عید مبارک - سو سو جتن کے ساتھ بلاتا رہا شُجاع آئے نه ایک بار، خیر عید مبارک

ﺍﺣﻤﺪ ﻧﺪﯾﻢ ﻗﺎﺳﻤﯽ

Image
ﺍﮎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻋﻮﺽ ﺍﺭﺽ ﻭ ﺳﻤﺎ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺪﺍ ﺩﮮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﺣﻤﺪ ﻧﺪﯾﻢ ﻗﺎﺳﻤﯽ

حضرت علی: راہ راست کیا ھے؟

امام اصفہانی رحمۃ الله علیہ نے حلیۃ الاولیاء میں حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت حسن بن علی کا ایک دلچسپ اور معارف سے بھرپور مکالمہ رقم کیا ھے، اس میں حضرت علی ابن ابی طالب کے کچھ سوالات اور حضرت حسن ابن علی کی جانب سے ان سوالات کے جواب دیے گئے ھیں. حضرت علی: راہ راست کیا ھے؟ حضرت حسن: برائی کو بھلائی کے ذریعہ دورکرنا حضرت علی: شرافت کیا ھے؟ حضرت حسن: خاندان کو جوڑ کر رکھنا اور ناپسندیدہ حالات کو برداشت کرنا. حضرت علی: سخاوت کیا ھے؟ حضرت حسن: فراخی اورتنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرنا. حضرت علی: کمینگی کیا ھے؟ حضرت حسن: مال کو بچانے کے لیے عزت گنوا بیٹھنا حضرت علی: بزدلی کیا ھے..؟ حضرت حسن: دوست کو بہادری دکھانا اوردشمن سے ڈرتے رھنا. حضرت علی: مالداری کیا ھے؟ حضرت حسن: اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رھنا ، خواہ مال تھوڑا ھی کیوں نہ ھو. حضرت علی: بردباری کیا ھے؟ حضرت حسن: غصے کو پی جانا ، اورنفس پر قابو رکھنا. حضرت علی: بے وقوفی کیا ھے..؟ حضرت حسن: عزت دار لوگوں سے جھگڑا کرنا. حضرت علی: ذلت کیا ھے؟ حضرت حسن: مصیبت کے وقت جزع فزع کرنا. حضرت علی: تکلیف دہ چیز کیا ھے؟ حضرت حسن: لایعنی اور

ہم پہ نازل ہوا ھے عشق ایسے

Image
ہم پہ نازل ہوا ھے عشق ایسے جیسے , قوموں پہ عذاب آتا ھے

عرصے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر "دی ٹرین" فلم بنائی

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جرمن فوج کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا تو جرمن کمانڈنٹ نے افسروں کو جمع کر کے کہا " ھم نازی جنگ ھار چُکے ھیں ، فرانس ھمارے ھاتھ سے نکل رھا ھے۔ یہ سچ ھے اور یہ بھی سچ ھے کہ شاید اگلے 50 برسوں تک ھم کو دوبارا فرانس میں داخلے کی اجازت بھی نہ ملے اس لیئے میرا حکم ھے کہ پیرس کے عجائب گھروں ، نوادرات سے بھرے نمائش گھروں اور ثقافت سے مالا مال ھنر کدوں سے جو کچھ سمیٹ سکتے ھو سمیٹ لو۔ جب فرانسیسی اس شھر کا اقتدار سنبھالیں تو انہیں جلے ھوئے پیرس کے علاہ کچھنہ ملے" جنرل کا حکم تھا سب افسر عجائب گھروں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالرز کے نوادرات اُٹھا لائے۔ اُن میں ڈوئچی کی مونا لیزا تھی ، وین گوہ کی تصویریں ، وینس ڈی ملو کا مرمریں مجسمہ غرض کہ کچھ نہ چھوڑا ۔ جب عجائب گھر خالی ھو گئے تو جنرل نے سب نوادرات ایک ٹرین پر رکھے اور ٹرین کو جرمنی لے جانے کا حکم دیا۔ ٹریں روانہ تو ھو گئی لیکن شھر سے باھر نکلتے ھی اس کا انجن خراب ھو گیا۔ انجئنیر آئے انجن ٹھیک کیا اور ٹرین پھر روانہ ھو گئی لیکن 10 کلومیٹر طے کرنے بعد اس کے پہیے جام ھو گئے۔ انجئنیر آئے مسئلہ ٹھیک کیا اور ٹری

پاگل کسے کہتے ہیں؟

پاگل کسے کہتے ہیں؟ جو ہوش گنوا بیٹھے؟ جو روڈ پہ جا بیٹھے؟ جو مانگ کے کھا بیٹھے؟ جو بھوک چھپا بیٹھے؟ کہتے ہیں اُسے پاگل؟؟ بے شرم پھرے جو وہ؟ ٹھوکر سے گِرے جو وہ؟ شکوہ نہ کرے جو وہ؟ بے موت مرے جو وہ؟ ہے کون بھلا پاگل؟ ننگا ہو بدن جس کا؟ گندا ہو رہن جس کا؟ آزاد ہو من جس کا؟ خالی ہو ذہن جس کا؟ کیا اس کو کہیں پاگل؟؟ گھر بھول گیا ہو جو؟ در بھول گیا ہو جو؟ زر بھول گیا ہو جو؟ شر بھول گیا ہو جو؟ وہ شخص ہے کیا پاگل؟؟ عزت سے ہو ناواقف؟ ذلّت سے ہو ناواقف؟ دولت سے ہو ناواقف؟ شہرت سے ہو ناواقف؟ کیا اُس کو کہیں پاگل؟؟ تم! بات مری مانو جو سچ ہے اسے جانو اس گول سی دنیا میں صرف ایک نہیں پاگل کچھ اور بھی ہیں پاگل جو ماں کو ستاتا ہے دل اس کا دُکھاتا ہے جو باپ کے اوپر بھی جھٹ ہاتھ اٹھاتا ھے وہ شخص بھی ہے پاگل جو رب کو بھُلا بیٹھا جو کرکے خطا بیٹھا دولت کے نشے میں جو جنت کو گنوا بیٹھا وہ شخص بھی هے پاگل جو علم نہ سیکھے وہ جو دین نہ جانے وہ جو خود کو بڑا سمجھے جو حق نہ مانےوه ہے وہ بھی بڑا پاگل دنیا میں جو کھویا ہے غفلت میں جو سویا ہے جو موت سے ہے غافل جو عیش کا جویا ہے اس کو بھی کہو پاگل...!!

اسے کھونے سے ڈرتا تھا

اسے کھونے سے ڈرتا تھا بہت رونے سے ڈرتا تھا پھر اک دن یہ سمجھ آیا کہ رویا انکو جاتا ھے بچھڑ جائے مقدر سے کہ کھویا انکو جاتا ھے جو حاصل ہوں میسر ہوں جو دانستہ بچھڑ جائے اسے رویا نہیں کرتے جسے پایا نہیں ابتک اسے کھویا نہیں کرتے

شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا

شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا تم جس پہ رو رہے تھے یہ کس کا مزار تھا تڑپوں گا عمر بھر دل مرحوم کے لئے کمبخت نامراد، لڑکپن کا یار تھا سودائے عشق اور ہے، وحشت کچھ اور شے مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا جادو ہے یا طلسم تمہاری زبان میں تم جھوٹ کہہ رہے تھے مجھے اعتبار تھا کیا کیا ہمارے سجدے کی رسوائیاں ہوئیں نقش قدم کسی کا سر رہ گزار تھا اس وقت تک تو وضع میں آیا نہیں ہے فرق تیرا کرم شریک جو پروردگار تھا (بیخود دہلوی)

اب تو___ خواہش ہے___ یہ درد ایسا ملے،

Image
اب تو___ خواہش ہے___ یہ درد ایسا ملے، سانس لینے کی حسرت میں مر جائیں ہم' اب تو خواہش ہے یہ، ایسی آندھی چلے__ جس میں پتوں کی مانند بِکھر جائیں ہم، ایسی ٹھوکر لگائے___ کہ __جی نہ سکیں، ایسی الجھیں یہ سینے میں سانسیں کہ پھر ہم __دوا پینا چاہیں____ تو پی نہ سکیں' کوئی ہمدم، نہ راہی ،نہ راحت ملے' ایک پل کا __سہارا__ نہ چاہت ملے" اب تو خواہش ہے یہ__ دشت ہی دشت ہو، ننگے پاؤں چلیں ہم سرِ بزم____ شمع کی مانند جلیں" جسکو چاہیں_ اسے پھر نہ پائیں کبھی چھوڑ جائیں یوں_ چُپ چاپ دنیا کو ہم دل یہ چاہے بھی تو پھر نہ آئیں کبھی" اب تو خواہش ہے یہ کہ سزا وہ ملے' کوئی صحرا، قلعہ __یا بیابان ہو' جس میں سالوں تلک قید ہی قید ہو' اپنے خالق و مالک سے میں نے جو کی "بے وفائی" وہاں پہ ____وہ ناپید ہو! ابنِ آدم کی چاہ کے کڑے جرم میں اپنی ہی ذات کے کھوکھلے بھرم میں' اب تو خواہش ہے یہ کہ سزا وہ ملے روئے جاؤں' تو چُپ نہ کرائے کوئی دور جنگل میں یا پھر کسی دشت میں ہاتھ پکڑے___ میرا ___چھوڑ آئے کوئی"
دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے کاغذ ، ڈور ، پتنگ کے پیچھے پاگل ہے یار ! میں اتنی سانولی کیسے بھاؤں تجھے ہر کوئی گورے رنگ کے پیچھے پاگل ہے شہزادی ، شہزادہ خوش اور بنجارہ... ٹوٹی ہوئی اک ''ونگ'' کے پیچھے پاگل ہے شہر- کبیر کی اک دوشیزہ ''ہیر'' ہوئی اور موءرخ جھنگ کے پیچھے پاگل ہے میں ہوں جھلی اس کے عشق میں اور وہ شخص آج بھی اپنی ''منگ'' کے پیچھے پاگل ہے............!

مزاج یار کی ایسی کی تیسی

مزاج یار کی ایسی کی تیسی اور اس پندار کی ایسی کی تیسی تیرے گیسو نشان تیرگی اور تیرے رخسار کی ایسی کی تیسی نگاہ ناز پہ سو بار تف ہو لب خمدار کی ایسی کی تیسی غزل میں اب نئے مضمون لاؤ گل و گلزار کی ایسی کی تیسی جہاں پر جنس الفت بک رہی ہے تیرے بازار کی ایسی کی تیسی میں سچی بات کہنے جا رہا ہوں رسن کی دار کی ایسی کی تیسی امیر شہر کی شاہی پہ لعنت بھرے دربار کی ایسی کی تیسی

اس کا نام آمنہ ہے

اس کا نام آمنہ ہے۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ وہ پہلے بھی میرے پاس آتی رہتی ہے۔ اورمجھ سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتی ہے۔ اس بار جب وہ میرے ہاں آئی تو کچھ الجھی ہوئی اور پریشان دکھائی دے رہی تھی، میں نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی.. "مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی۔" میں نے پوچھا: کس بات کی؟ بتائو، شاید میں تمھاری کچھ مدد کر سکوں... کہنے لگی: "جب بھی میں بازار یاکسی مارکیٹ جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہوں تو نوجوان مجھے گھورتے ہیں، جملے کستے ہیں اور مختلف حرکتوں اور باتوں کے ذریعے سے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں، حالانکہ میں ایک معزز اور پاکباز لڑکی ہوں۔ مجھ میں الله کا خوف بھی ہے۔ میرے والدین نے میری اچھی تربیت کی ہے۔ پھر بھی نہ جانے میرے ساتھ تقریباً ہر بار ہی ایسا کیوں ہوتا ہے۔" میں نے کہا: "میں تمھیں ایک بات کہنا چاہتی ہوں مگر سوچ رہی ہوں کہ کہوں یا نہ کہوں؟" وہ کہنے لگی: "سوچنا کیسا؟ جو کہنا چاہتی ہیں کہیں۔" میں نے کہا: "دراصل اس بات کا تعلق تمھاری ذاتی زندگی اور شخصی آزادی سے ہے اور ہو

ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟؟

ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟؟ یہ پچھلے سال کے رمضان کا آخری عشرہ تھا، شاید بائیسویں یا چوبیسویں شب. چھوٹو تراویع کے بعد ہی سے رٹ لگانا شروع ہوگیا تھا، ماما آج ہمیں دوست نے گھر بلایا ہے، رات ہم اس کے گھر جائیں گے اور سحری کر کے آئیں گے. چونکہ یہ معلوم تھا کہ ماما کبھی کسی کے گھر رات کو رکنے کی اجازت نہیں دیتیں سو ماما کی خاموشی کے باوجود بار بار یاد دہانی کروارہا تھا. جب اس کی ہر یاد دہانی کے جواب میں ماما خاموش رہیں تو بڑے صاحب ( بڑے بھائی ) بھی درمیان میں کود پڑے کہ ظاہر ہے انھں بھی ساتھ جانا تھا سو ذرا زور دے کر کہا : ماما آپ جواب کیوں نہیں دے رہیں؟ ماما نے اک نظر اس پر ڈالی جیسے خود سوال کر ڈالا ہو کہ کبھی اس طرح کہیں رات رکنے کی اجازت ملی ہے؟ بڑے صاحب نے اک لمحے کو نگاہیں ادھر ادھر کیں مگر پھر بولے : آپ ہمیں کب تک بچہ بنا کر رکھیں گی ماما؟ ہمارے سارے دوست کئی کئی راتیں دوستوں کے گھروں پر رکتے ہیں کیا ان کی ماما نہیں ہوتیں؟ بچوں کے چہروں پر چھائی جھنجھلاہٹ اور دبے دبے غصے نے اک لمحے کو ماما کو پریشان سا کیا مگر پھر نرم لہجے میں کہا: کیا کرنا ہے رات بھر اس دوست کے گھر؟ کیا شب بیدا

پاگل آنکھوں والی لڑکی

پاگل آنکھوں والی لڑکی اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو تھک جاؤ گی کانچ سے نازک خواب تمہارے ٹوٹ گئے تو پچھتاؤ گی سوچ کا سارا اجلا کندن ضبط کی راکھ میں گھل جائے گا کچے پکے رشتوں کی خوشبو کا ریشم کھل جائے گا تم کیا جانو.... خواب، سفر کی دھوپ کے شیشے خواب، ادھوری رات کا دوزخ خواب، خیالوں کا پچھتاوا خوابوں کی منزل رسوائی خوابوں کا حاصل تنہائی تم کیا جانو.... مہنگے خواب خریدنا ہوں توآ نکھیں بیچنا پڑتی ہیں یا رشتے بھولنا پڑتے ہیں اندیشوں کی ریت نہ پھانکو پیاس کی اوٹ سراب نہ دیکھو اتنے مہنگے خواب نہ دیکھو تھک جا ؤ گی سید محسن نقوی

ایک دانا کی انٹرنیٹ سے متعلق اپنے بیٹے کو نصیحت

ایک دانا کی انٹرنیٹ سے متعلق اپنے بیٹے کو نصیحت پیارے بیٹے! گوگل، فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور باہمی رابطوں کے دیگر تمام ذرائع درحقیقت ایک گہرا سمندر ہیں جس میں لوگ اپنے اخلاق کو کھو رہے ہیں اور دماغی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور جوان بھی۔ اس سمندر کی بے رحم موجیں نہ صرف ایک خلق کثیر کو ہلاک کرچکی ہیں بلکہ ہماری عورتوں کی حیا بھی نگل چکی ہیں۔ اس میں انہماک سے بچو۔ انٹرنیٹ پر تمہارا رویہ شہد کی مکھی کی طرح ہونا چاہیے، صرف عمدہ باتوں پر توجہ مرکوز کرو، خود بھی استفادہ کرو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاو۔ عام مکھی کی طرح ہر گندی اور صاف چیز پر مت بیٹھو، مبادا دوسروں تک بیماری کے جراثیم منتقل کرنے لگو اور تمہیں اس کا احساس ہی نہ ہو۔ پیارے بیٹے! انٹرنیٹ ایک بڑی مارکیٹ ہے، یہاں کوئی بھی اپنی چیز مفت لے کر نہیں بیٹھا، ہر شخص اپنا سودا کسی نہ کسی عوض پر دینے کا خواہشمند ہے۔ کوئی اپنی چیز کا سودا اخلاق کی قیمت پر کرنا چاہتا ہے تو کسی کو فکری انتشار کی تجارت پسند ہے۔ بعض کا مقصد شہرت اور حبِ جاہ ہے اور ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس لئے خریداری سے پہ

وہ ایک دلچسپ کردار تھے

وہ ایک دلچسپ کردار تھے.. وہ جوانی میں لکھ پتی سے ککھ پتی ھوئے.. محل سے فٹ پاتھ پر آئے اور دفتر کی ھر چیز بک گئی اور نوبت فاقوں تک آگئی مگر انہوں نے پھر اٹھارہ ھزار روپے سے دوبارہ سٹارٹ لیا اور وہ ملک کے بڑے کاروباری بن گئے.. میں ان سے وہ فارمولا معلوم کرنا چاھتا تھا جس نے انہیں اٹھارہ ھزار سے 18 کروڑ اور پھر 18 ارب تک پہنچا دیا اور مجھے انہوں نے یہ کہانی سنا دی.. میں اب وہ راز جاننا چاھتا تھا مگر ان پر رقت طاری تھی.. وہ آنکھیں صاف کرتے' ھاتھ ملتے اور لمبے لمبے سانس لیتے تھے.. وہ بڑی دیر تک اس کیفیت میں رھے اور پھر اچانک سر اٹھا کر بولے.. " میں بھی دراصل اپنے برے وقت میں وھی غلطی کر رھا تھا جو دنیا کے زیادہ تر لوگ کرتے ھیں.. میں اپنے دوستوں عزیزوں' رشتے داروں' جاننے والوں اور مخیر حضرات کے پاس جاتا تھا' ان سے مدد مانگتا تھا.. میرے کچھ دوستوں نے میری مدد کی بھی مگر برے وقت میں ھر مدد برائی ثابت ھوتی ھے.. میرا وہ سرمایہ بھی ڈوب گیا.. یہاں تک کہ میرے جاننے والوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا.. یہ مجھے دیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے یا پھر مجھے پہچاننے سے انکار کر دیتے تھے.. میں

لڑکے —– گل نوخیز اختر

لڑکے —– گل نوخیز اختر —————————- لڑکے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں ….. ٹیکنیکل لڑکے ….. شریف لڑکے ….. الیکٹرانک لڑکے ….. بیٹری والے لڑکے ….. ریموٹ کنٹرول لڑکے ….. بم لڑکے….. اور ….. سی این جی لڑکے ….. آئیے باری باری ان تمام اقسام کا جائزہ لیتے ہیں !!! 1-(ٹیکنیکل لڑکے) :- یہ وہ لڑکے ہیں جو ہر بات کا ٹیکنیکل حل تلاش کرتے ہیں، میں نے ایک ٹیکنیکل لڑکے سے پو چھا کہ بال لمبے کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟اطمنیان سے بولا ….. مٹی کے تیل سے اچھی طرح دھو کر ، آگ پر سکھائیں ….. !!! ٹیکنیکل لڑکے معمولی چیزوں سے بھیانک بھیانک نتائج حاصل کرنا جانتے ہیں ….. میں نے اسی طرح کے ایک لڑکے سے پوچھا کہ جس لڑکی سے تم محبت کرتے ہو اگر وہ تمہیں نہ ملی تو تم کیا کرو گے؟سگریٹ کا کش لیتے ہوئے بولا …. میں اس کے باپ کے تالو میں اینٹ دے ماروں گا۔میں نے سہم کر پوچھا ….. اور لڑکی کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟خوفناک لہجے میں بولا….. میں اسے اغواء کر لوں گا اور روزانہ صبح نہار منہ اوباما کی تصویر دکھایا کروں گا …..میں اس کا یہ بھیانک منصوبہ سن کر دہل گیا اور کانوں کو ہاتھ لگا دیے۔ 2-(شریف لڑکے) :- ان میں شرافت کوٹ کوٹ کر بلکہ مار مار ک

وہ سبق جو چھ سالہ بچی نے دیا

وہ سبق جو چھ سالہ بچی نے دیا..... چند دن پہلے میں نے یہ کہانی پڑھی۔ دل کو چھو لینے والی اس سچی کہانی نے مجھے تو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک امریکی نوجوان رابرٹ پیٹرسن نے یہ واقعہ سچی کہانیاں شائع کرنے والی ایک ویب سائیٹ کو ارسال کیا تھا۔اس کا آزاد ترجمہ نذر قارئین ہے۔ پیٹرسن لکھتے ہیں: ’’میں نے پہلی بار اس معصوم بچی کو ساحل سمندر پر دیکھا تھا۔ میرا گھر سمندر سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔ جب میں کبھی پریشان یا دبائو کا شکار ہوجائوں تو ساحل کا رخ کرتا ہوں ۔اس روز بھی میں ڈپریشن کی کیفیت میں ساحل سمندر پر پہنچا۔ وہاں میں نے اس چھ سالہ خوبصورت بچی کو ریت کے گھروندے بناتے دیکھا۔ میں اس کے قریب سے گزرا تو اس نے سر اٹھایا، اپنی نیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ہیلو کہا۔ میں نے بے دلی سے جواب دیا۔ میں کسی چھوٹے بچے کے ساتھ گفتگو کے موڈ میں بالکل نہیں تھا۔ بچی نے خود ہی بات بڑھائی ۔’’میں کنسٹرکشن کر رہی ہوں‘‘، اس جملے پر میں نے رسماً پوچھا، ’’کیا بنا رہی ہو؟‘‘ بچی دھیرے سے مسکرائی اور بولی، ’’ پتہ نہیں، میں تو ریت کا لمس محسوس کر رہی ہوں۔‘‘ ایک بچے سے یہ خوبصورت اور گہری بات سن کر میں پہلی بار چونکا۔ مج

ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﺑﻮ ﻋﺎﻣﺮ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﺑﻮ ﻋﺎﻣﺮ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮍﯼ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻻﺣﻖ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﺍﮨﮯ ﭘﺮ ﺟﺎﭘﮩﻨﭽﺎ ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻣﺰﺩﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ ۔ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻟﮓ ﺗﮭﻠﮓ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ .ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﻼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺸﮧ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ '' ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ؟ '' ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ,'' ﮨﺎﮞ ''! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ''ﮔﺎﺭﮮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔ '' ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ '' ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ! ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﯿﻦ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﮞ ... ﭘﮩﻠﯽ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ...ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺎﻡ ﻟﻮ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻭﮐﻮ ﮔﮯ ''۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺷﺮﻃﯿﮟ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ

اس تھیلے میں کیا ھے... دیہاتی نے شکاری سے پوچھا

اس تھیلے میں کیا ھے... دیہاتی نے شکاری سے پوچھا اس میں کارتوس ہیں کارتوس سے کیا ھوتا ھے ؟ اگر شیر کو ماریں تو شیر بھی مر جاتا ھے.. میرا گھر جنگل کے کنارے پر ھے... جنگلی جانور کثرت سے آتے رھتے ھیں یہ تو بڑے کام کی چیز ھے.. ضرور اس سے خرید لوں.... وہ خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا آپ اتنے خوش کیوں ہیں؟ اسکی بیوی نے پوچھا سارے خطرے ختم ہوگئے اس نے کارتوس دکھاتے ہوئے کہا یہ دیکھو کارتوس شیر کو مارو تو وہ بھی مر جاتا ھے اب کوئی بھیڑیا اور جنگلی جانور اور دشمن ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا اتنی دیر میں ایک آوارہ کتا سامنے سے گزرا میں ابھی اسکا کمال تمہیں دکھاتا ہوں یہ کہہ کر اس نے زور سے ایک کارتوس کتے کا دے مارا لیکن یہ شاید مس ہوگیا ھے جب کتے کو کچھ نہ ہوا تو اس نے سوچا اس نے دوسرا اور تیسرا کارتوس بھی داغ دیا کتا بجائے زخمی ہونے کا کھڑا ہوکر غرانے لگا میرے ساتھ دھوکہ ہوگیا اس نے تو بہت یقین دیھانی کروائی تھی وہ کھڑے قدموں ہی واپس ہوا اور غصے میں اس کا رنگ سرخ ہو رہا تھا شکاری نے دیکھا کہ وہ دیہاتی بھاگتا ہوا آرہا ہے اس نے سوچا اللہ خیر ہی کرے کیا ہوگیا تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ھے اس سے تو کتا

فراڈ

Image
⭕ فراڈ ⭕ 4کروڑ= 42لاکھ= 65ہزار . . . یہ نوجوان لندن کے ایک بین الاقوامی بینک میں معمولی سا کیشیر تھا‘ اس نے بینک کے ساتھ ایک ایسا فراڈ کیا جس کی وجہ سے وہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا فراڈیا ثابت ہوا‘ وہ کمپیوٹر کی مدد سے بینک کے لاکھوں کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے ایک‘ ایک پینی نکالتا تھا اور یہ رقم اپنی بہن کے اکاؤنٹ میں ڈال دیتا تھا، وہ یہ کام پندرہ برس تک مسلسل کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے کلائنٹس کے اکاؤنٹس سے کئی ملین پونڈ چرا لیے، آخر میں یہ شخص ایک یہودی تاجر کی شکایت پر پکڑا گیا‘ یہ یہودی تاجر کئی ماہ تک اپنی بینک سٹیٹ منٹ واچ کرتا رہا اور اسے محسوس ہوا اس کے اکاؤنٹ سے روزانہ ایک پینی کم ہو رہی ہے چنانچہ وہ بینک منیجر کے پاس گیا‘ اسے اپنی سابق بینک سٹیٹمنٹس دکھائیں اور اس سے تفتیش کا مطالبہ کیا... منیجر نے یہودی تاجر کو خبطی سمجھا ‘ اس نے قہقہہ لگایااور دراز سے ایک پاؤنڈ نکالا اور یہودی تاجر کی ہتھیلی پر رکھ کر بولا : ’’ یہ لیجئے میں نے آپ کا نقصان پورا کر دیا ‘‘ یہودی تاجر ناراض ہو گیا‘ اس نے منیجر کو ڈانٹ کر کہا : ’’میرے پاس دولت کی کمی نہیں‘ میں بس آپ لوگوں کو آپ کے سسٹم کی کمزوری بتانا

کبھی صحرا تھا اور اب ایک ذرّہ رہ گیا ہُوں

Image
کبھی صحرا تھا اور اب ایک ذرّہ رہ گیا ہُوں مگر مَیں پھر بھی دریاؤں سے اچّھا رہ گیا ہُوں کسی نے دیکھتے ہی دیکھتے نظریں بدل لیں جبھی تو بنتے بنتے مَیں ادھورا رہ گیا ہُوں مِٹا جاتا ہُوں لوحِ خاک سے ' پر دُنیا والو ! مجھے اُتنا تو پہچانو کہ جتنا رہ گیا ہُوں پلٹ کر پھر نہیں آئے وہ دن ، خوش بُو بھرے دن مَیں آخر سانس تک اُن کو بُلاتا رہ گیا ہُوں مِری ہیئت کذائی ہی نہ تھی بِھِک منگوں جیسی سو مَیں اُس در پہ بھی بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا ہُوں مجھے دریا نے پانچوں وقت دھویا ہے' مگر مَیں سپوتِ خاک تھا ' میلا کچیلا رہ گیا ہُوں مِرے اندر کے پنچھی چہچہاتے ہی نہیں اب مجھے لگتا ہے جیسے خالی پنجرہ رہ گیا ہُوں زمانے کی ہَوا مجھ پر نظر گاڑے ہُوئے ہے سرِ محراب اک مَیں ہی تو جلتا رہ گیا ہُوں مِرے سائے میں بیٹھے ہیں طیورِ شوق اب تک شجر سے گھٹ کے گرچہ شاخِ تنہا رہ گیا ہُوں بس اِتنا رہ گیا ہے روشنی سے ربط ' یعنی کبھی مَیں چاند تھا ' اب صرف ہالہ رہ گیا ہُوں جنہیں جینے کی دُھن تھی تیری بستی چھوڑ بیٹھے یہاں اب مَیں ہی تجھ پر مرنے والا رہ گیا ہُوں

بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قصے

Image
بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قصے گل و گلزار کی باتیں،،،، لب و رخسار کے قصے یہاں سب کے مقدر میں،،، فقط زخمِ جدائی ہے سبھی جھوٹے فسانے ہیں وصالِ یار کے قصے بھلا عشق و محبت سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے سنو تم کو سناتا ہوں،،، میں کاروبار کے قصے مرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں سرِ دیوار لکھتا ہوں،،،،،،،،، پسِ دیوار کے قصے کہانی قیس و لیلیٰ کی بہت ہی خوب ہے لیکن مرے دل کو لبھاتے ہیں،، رسن و دار کے قصے شعیب اکثر میں لوگوں سے اسی کارن نہیں ملتا وہی بے کار کی باتیں،،،،،، وہی بے کار کے قصے

اُداس لوگوں سے پیار کرنا، کوئی تو سیکھے

Image
اُداس لوگوں سے پیار کرنا، کوئی تو سیکھے سفید لمحوں میں رنگ بھرنا، کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا، کوئی تو سیکھے کوئی دِکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو میری نگاہوں سے بات کرنا، کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام لے کر اندھیری راتوں میں چاند بننا، کوئی تو سیکھے کوئی پیامبر کوئی امامِ زماں ہی آئے اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا، کوئی تو سیکھے

پردیسی لوگ

پردیسی لوگ ضرورت یا آسائش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دوست انگلینڈ سے واپس پاکستان آرہے تھے، جہاز میں جو مسافر ساتھ بیٹھا تھا وہ انگلینڈ میں ہی مقیم تھے۔۔۔۔۔۔ جبکہ ان کے بیوی بچے والدیں سب پاکستان میں موجود تھے۔۔۔۔۔۔۔ ان کی واپسی چھ سال بعد ہورہی تھی یعنی چھ سال کی تنہا زندگی گزارنے کے بعد وہ ملک واپس جارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ چہرے پر خوشی تو تھی لیکن ایک عجیب سی کسک بھی تھی۔۔۔۔۔۔ جب کچھ باتیں کُھلیں تو پتہ چلا کہ یہ گذشتہ چار سال سے گھر والوں سے ملنے جانا چاہ رہے تھے لیکن کبھی کوئی مسئلہ کبھی کوئی مسئلہ۔۔۔۔۔ کبھی کوئی فرمائش کبھی کوئی فرمائش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کوئی مطالبہ اور کبھی کوئی مالی ضرورت۔۔۔۔۔۔ اور ان کی واپسی کا پروگرام موخر ہوتے ہوتے چار سال کی دیری کا شکار ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔ انسانی عمر میں چھ سال کا اندازہ لگائیں کہ کتنا بڑا عرصہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ بچے چھ سال بڑے ہوگئے گویا باپ اور بچوں کے درمیان چھ سال کی خلیج آگئی۔۔۔۔۔۔ بیوی چھ سال کی راہ تکتے تکتے اپنی زندگی کے چھ حسین سال کھو بیٹھی اور ماں باپ مزید چھ سال بوڑھے ہوگئے۔۔۔۔۔۔ اوریہی کسک ان صاحب

sad

خواتین کے ایک معروف سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا بھاگم بھاگ اس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟ اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں۔۔۔ ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔ کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔کیا بات ہے؟” مس تلاشی لینے والی طالبہ بولی ۔۔۔ کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی۔۔۔ ٹیچر وہیں تڑک سے بولی پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے کوثر تڑپ کر بولی نہیں۔۔ نہیں مس میں چور نہیں ہوں ”چور۔۔۔نہیں ہو تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو ”نہیں ۔۔کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی ۔۔۔ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ

(لیش انت رو باکستان؟)

(لیش انت رو باکستان؟) تم کیوں پاکستان گئے ؟ قارئین بلکل سچا واقعہ جو کے آج سے تقریباً ٤ سال پہلے کویت میں پیش آیا آپ سب کی خدمت میں عرض ہے کویت کے پولیس سٹیشن میں ایک انوکھی طرز کا کیس آیا تھا سب آفیسرز پریشان تھے کے اس معاملے میں انصاف کیسے کیا جائے کیس کی نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کے ٣ عدد انڈین حضرات نے پاکستان بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سرحد کی حفاظت پرمامور محافظ نے ان کی جم کر پٹائی کی اب وہ کویت پولیس کے پاس فریاد لے کر پہنچے کے ہمارے ساتھ ہوئی زیادتی کا ہمیں انصاف دلایا جائے قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے کے معاملات انڈیا اور پاکستان کے بیچ ہیں تو کویت پولیس کا ان سب میں کیا عمل اور دخل ہے ؟ بلکل میں نے بھی ایسا ہی سوچا تھا جب پہلی بار لیکن جب واقعے کی حقیقت عیاں ہوئی تو میرے بے اختیار میرے منہ سے قہقے کے بعد جو الفاظ نکلے تھے وہ بھی یہی تھے کے لیش انت رو باکستان (تم پاکستان کیوں گئے) تو جناب قصہ کچھ یوں تھا کے کویت میں بسلسلہ روزگار انڈر کنسٹرکشن بلڈنگ میں ٣ انڈین اور ایک پاکستانی خان صاحب کام کر رہے تھے اب انڈین اشخاص یہ سوچ کر کے ہمیں اس اکیلے پاکستانی آ

آج جانے کی ضد نہ کرو

آج جانے کی ضد نہ کرو یونہی پہلو میں بیٹھے رہو ہائے مرجائیں گے، ہم تو لٹ جائیں گے ایسی باتیں کیا نہ کرو تم ہی سوچو ذرا، کیوں نہ روکیں تمہیں جان جاتی ہے جب اٹھ کے جاتے ہو تم تم کو اپنی قسم جانِ جاں بات اتنی میری مان لو وقت کی قید میں زندگی ہے مگر چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں ان کو کھو کر ابھی جانِ جاں عمر بھر نہ ترستے رہو کتنا معصوم و رنگیں ہے یہ سماں حسن اور عشق کی آج معراج ہے کل کی کس کو خبر جانِ جاں روک لو آج کی رات کو گیسوؤں کی شکن ہے ابھی شبنمی اور پلکوں کے سائے بھی مدہوش ہیں حسنِ معصوم کو جانِ جاں بے خودی میں نہ رسوا کرو

کلمہ گو جہنمی

کلمہ گو جہنمی . "خیریت سے جائیں اور پہنچ کر میسج کر دینا باجی" اٹھارہ سالہ نوجوان نے اپنی بڑی بہن کو اکیڈمی پہنچانے کے لیے رکشہ پر سوار کرواتے ہوئے کہا- رکشہ سوئے منزل چل پڑا اور اس کا ڈرائیور نہایت شفقت اور پرخلوص انداز میں خاتون سے ان کے تعلیمی مرکز کے بارے میں پوچھنے لگا کہ باجی آپ کس جماعت کے طالبِ علموں کو پڑھاتی ہیں؟ میری بیٹی بھی نویں جماعت کے امتحان دے رہی ہے- خاتون نے جب رکشے والے کا اتنا معتبر انداز دیکھا تو بلا جھجک بتایا کہ مَیں فلاں اکیڈمی میں دسویں جماعت کے طالبِ علموں کو اسلامیات پڑھاتی ہوں… رکشے والے نے اپنی بیٹی اور گھر کے کچھ عام حالات کا ذکر کیا اور ساتھ ساتھ بہت انکساری والے انداز میں خاتون سے ان کے بارے میں بھی عام باتیں پوچھنے لگا … دورانِ گفتگو اچانک ہی رکشے والے کو ایک کال موصول ہوئی جس کے سنتے ہی وہ سکتے میں آ گیا- دوسری جانب سے اسے ایک بہت ہی بری خبر ملی تھی کہ اس کی بیوی سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گئی ہے- ابھی خاتون کی منزل آنے میں کافی سفر باقی تھا- حالات کے پیشِ نظر رکشے والے نے انہیں عرض کی کہ باجی میرا گھر یہاں سے نزدیک ہی ہے، اگر آپ اجازت

آج کے لیے بس یهی پوسٹ کافی هے.

Image
آج کے لیے بس یهی پوسٹ کافی هے... گھر میں داخل ہوتے ہی میری پہلی نظر چاچا انور پہ پڑی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا۔ مجھے گلاسگو آئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا۔ گھر سے دوری کا احساس شدید تھا اور سکاٹ لینڈ کی سردی اداسی کو مزید گہرا کر دیتی تھی۔ ایک نووارد طالبعلم کیلیے سستی رہائش ایک شدید مسلئہ ہوتی ہے اور میرا بھی یہ تیسرا گھر تھا۔ گھر میں چاچا عمر میں سب سے بڑا تھا اور میں سب سے چھوٹا۔ اسکے باوجود چاچے اور میری دوستی ہو گئی۔ چاچا کسی ہوٹل پر دن بھر برتن دھوتا تھا۔ اور پھر گھر آ کر یا تو پاکستان کچھ دیر فون کر لیتا تھا یا پھر گانے سنتا اور سگریٹ پھونکتا۔ بلاضرورت باہر جاتے اسے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ چاچے کو جب پتہ چلا کہ میں یونیورسٹی میں ماسٹرز کر رہا ہوں تو چاچے نے خوامخواہ میرا احترام بھی شروع کر دیا۔ چاچا عام اجڈ لوگوں کے طرح مجھے “تو”کے بجائے “تسی” کہ کر مخاطب کرتا اور کبھی کبھی اپنے ساتھ میرے لیے بھی روٹی بنا دیتا کہ “پیٹہ بریڈ” کھا کھا کر میں سوکھتا جاتا تھا۔ میں جب یونیورسٹی یا جاب سے واپس آتا تو چاچا بڑے پیار سے دو کپ چائے بناتا اور میرے ساتھ باتیں کرتا۔ سگریٹ کے

صدقہ سے متعلق

صدقہ سے متعلق اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے، تو یقینا دینے والے کو لذت، لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی. کیا آپ کو صدقہ کے فوائد معلوم ہیں؟ فوائد نمبر 17، 18، 19 کو خاص توجہ سے پڑهیے گآ :- تو سن لیں ! صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!! 1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے. 2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے. 3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا. 4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے، اور قبر کی گرمی کی ٹهنڈک کا سامان ہے. 5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتے رہتے ہیں. 6. صدقہ مصفی ہے، نفس کی پاکی کا ذریعہ اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے. 7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے. 8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے، اور گزرے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا. 9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے. 10.

بیٹی !!! میری گاڑی کی چابی تو لانا ۔۔۔

بیٹی !!! میری گاڑی کی چابی تو لانا ۔۔۔ جی بابا ۔۔۔۔ ابھی لائی ۔۔ بیٹی : چائے بنا کر لاو مجھے باہر جانا ہے ۔۔ جی ابھی لائی بابا ۔۔۔۔ بہو۔۔۔ او بہو ( سسر نے آواز دی ) میری دوائیاں کہاں ہیں ؟ جی وہ آپ کے روم میں رکھ دی تھیں اور پانی کا گلاس بھی ۔۔ ابھی آپکے لئے کھانا لگا رہی ہوں ۔۔۔ امی جی ۔۔۔۔ امی جی ( بیٹے نے آواز دی ) میرے شوز کہاں ہیں ؟؟ مل نہیں رہے ۔۔ مجھ کھیلنے جانا ہے ۔ بیٹا وہیں تو رکھے تھے ۔ اچھا بیٹھ، میں لاتی ہوں ۔۔ امی جی ۔۔۔۔ نیا والا جوڑا کہاں ہے میرا !! الماری میں نہیں ہے ۔۔ بیٹا وہ صبح دھویا تھا ۔۔ اچھا چل سوکھ گیا ہوگا تو میں استری کر کے لاتی ہوں ۔۔۔ بیگم ۔۔۔۔ بیگم ( میاں نے آواز دی ) جلدی سے چائے کا انتظام کرو میرے کچھ دوست آرہے ہیں اور ساتھ میں کچھ کھانے کیلئے بھی بنا دینا ۔۔۔ اور سنو میری لال والی شرٹ بھی ریڈی کر دو ۔۔ اور۔۔۔۔ اور سنو وہ جو امپوٹڈ والی پرفیوم آئی تھی میرے لیے باہر سے وہ بھی پکڑا دو مجھے ۔۔ ( صوفے پر بیٹھے بیٹھے آڈر جاری کیا ) جی ابھی لائی ۔۔۔۔ سمینہ ۔۔۔۔ سمینہ ( مالکن نے آواز دی ) برتن دھو لیے تو صحن میں پوچھا مار دیو اچھے سے۔۔۔ بازار سے سبزی لانا مت