Posts

اسیں لکھہ نمازاں نیتیاں، اسیں سجدے کیتے لکھ

اسیں لکھہ نمازاں نیتیاں، اسیں سجدے کیتے لکھ کدی ٹبیاں ریتاں رولیاں، کدی گلیاں دے وِچ ککھ اسیں پکّھو وِچھڑے ڈار توں، اسیں اپنڑیں آپ توں وکھ اسیں وِیکھیا دل مخلوق دا، دل بُوہے بُوہے رکھ اسیں راتاں کٹیاں جاگ کے، لگ بَاریاں نال کَھلو ساڈی اکھیں رَستیاں ساڑیاں، دل دِتا درد پرو ساڈے ساہ وچ صبر دی چاشنی، ساڈی رگاں وچ خَشبو ساتھوں ہار کے ساڈے حوصلے، پے کندھاں نَپ نَپ رو اسیں گبھرو سکدے شہر دے، ساڈے خاباں نال وداں اسیں خالی کُھوکھے ذات دے، سانو چُنجاں مارن کاں اسیں موسم کچے عشق دے، ساڈی دُھپ بنے نہ چَھاں ساڈے ماتھے بھرے لکیر دے، ساڈی قسمت مُول نہ تھاں اسیں مُجرم عشق دے جرم دے، اسیں سُفنے لیے اُڈیک ساتھے لگن روز عدالتاں ،سانو پے جاے روز تریک نِت آساں لا لا بیٹھئے، نِت دل تے ماریے لیک کدی چِھکے چَن آسمان تے، کدی مِٹی لوے دَھرِیک اسیں جمدے نال دے گھابرے، اسیں قسمت نال خفا کدی پتھراں دے وچ کھیڈ دے، کدی ٹردے ڈھور اڈا اسیں بھولے وانگ کبوتراں، اسیں پاگل وانگ ہوا اسیں اپنے آپ عبادتی .....اسیں اپنے آپ خدا (فرحت عباٗس)

Halliday resnick and krane 5th edition vol 1

Image
Download this Book

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاۂ آئینہ ساز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں....

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں ملتا ہے کہاں خوشہٰ گندم کہ جلاؤں شاہین کا ہے گنبدشاہی پہ بسیرا کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں ہر داڑھی میں تنکا ہے،ہر ایک آنکھ میں شہتیر مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر توحید کی تلوارسے خالی ہیں نیامیں اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں شاہیں کا جہاں آج گرگس کا جہاں ہے ملتی ہوئی ملاّ سے مجاہد کی اذاں ہے مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے،لیکن دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے وہ سجدہ

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں..

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں.. اک روشن تاره دکهتا ہو.. جب ريت كے ذرے زرے ميں .. کوئی نام ادهورا لکھتا ہو.. جب کالى چادر اھوڑ ے وہ.. کسی درگاہ پہ کبھی رکتا ہو.. جب خالی خالی نظروں سے.. رنگوں پہ انگلی رکھتا ہو____!! تم ايسے شخص کی سنگت ميں.. سورج کی اجلی رنگت ميں.. اک منت مانگ کے دريا ميں.. دو بوند بہانا چاندی کے.. اک پھول کھلے گا پانی ميں.. کوئ راز کھلے گا سينے میں____!! جب مڑ کے دنيا ديکھو گے.. وہ شخص کہیں کھو جاے گا.. کہیں چاند کی پھيکی جھالر ميں.. .کہیں ريت کے ذرے ذرے ميں....!!!!

ابھی ہیں خواب آنکھوں میں ،ابھی تعبیر زندہ ہے

ابھی ہیں خواب آنکھوں میں ،ابھی تعبیر زندہ ہے ابھی دل کے صنم خانے میں اِک تصویر زندہ ہے تڑپتا ہے دلِ وحشی ابھی غم کے شکنجے میں ابھی تو پنجہِ شہباز میں ،نخچیر زندہ ہے ترے الفاظ سوچوں بھی تو یاد آتے نہیں مجھ کو ترے لہجے سے جو دل پر لگا ،وہ تیر زندہ ہے سُخن آثار لمحوں کو جو پہچانا ،تو یہ جانا انہیں لمحوں میں لکھے لفظ کی تاثیر زندہ ہے جو دھڑکن بن کے دھڑکی ہے،نئی صدیوں کے سینے میں کُتب خانوں کے شیلفوں میں ،وہی تحریر زندہ ہے نہ کُچلو لفظ کی حُرمت کہ کل دنیا دُھائی دے مُصنف مر گیا ،اس کی مگر تقصیر زندہ ہے ابھی آہ و فغاں کی ریت ہے، اشعار میں جاری ابھی شعروسُخن کی وادیوں میں ،مؔیر زندہ ہے تماشا گاہِ دنیا میں کیا ،رقصِ جنوں برسوں مگر اب تک ہمارے پاؤں میں زنجیر زندہ ہے یہ دیمک وقت کی ساری کتابیں چاٹ لیتی ہے مگر اِک نسخہِ قُرآن کی توقیر زندہ ہے کوئی وُقعت ستارے کی نہیں ماہتاب کے آگے مقابل ہو اگر تقدیر ،کب تدبیر زندہ ہے سُنا جو شور و غوغا نصف شب ،تو ہنس کے فرمایا دمِ عشاق سے ہی نالہِ شب گیر زندہ ہے بجائے بانسری کے فون ہے رانجھے کے ہاتھوں میں ورق پر فیس بُک کے ،دورِ نَو کی ہیر زندہ ہے امانت ہے نئی