... آہٹ تو ہو بہو دلِ درد آشنا کی تھی یہ گریۂ فضا تھا کہ سسکی ہوا کی تھی چہرے پہ اس کے آج ہے سرسوں کھلی ہوئی وہ جس کی بات بات میں خوشبو حنا کی تھی سینے میں جو اتر گئی تلوار کی طرح وہ بات تو مرے کسی درد آشنا کی تھی ہم رہروانِ منزلِ امید کیا کہیں تحریر یہ لکھی ہوئی دستِ قضا کی تھی وہ چشم و لب وہی تھے جنہیں ڈھونڈتا ہوں میں گو اس کی بات بات میں تلخی بلا کی تھی ہر سنگِ راہ تھا، مرا مونس، مرا حبیب کس کس جگہ پہ چھاپ ترے نقشِ پا کی تھی
Posts
Showing posts from April 16, 2014
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
- Get link
- X
- Other Apps
By
Maqsood Awan
-
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آکر نہیں گیا تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی وہ خار وخس میں آگ لگا کر نہیں گیا شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا