کم سخن ہیں پسِ اظہار ملے ہیں تجھ سے
کم سخن ہیں پسِ اظہار ملے ہیں تجھ سے
ملنا یہ ہے تو کئی بار ملے ہیں تجھ سے
جانتے ہیں کہ نہیں سہل محبت کرنا
یہ تو اک ضد میں مرے یار ملے ہیں تجھ سے
تیز رتارئ دنیا کہاں مہلت دے گی
ہم سرِ گرمی بازار ملے ہیں تجھ سے
کبھی لاتے تھے ترے واسطے جو شاخِ گلاب
وہ بھی اب کھینچ کے تلوار ملے ہیں تجھ سے
تیرے ملنے سے انہیں روک سکا ہے کوئی
ملنے والے تو سرِ دار ملے ہیں تجھ سے
کھینچ لاتی ہے ہمیں تیری محبت ورنہ
آخری بار کئی بار ملے ہیں تجھ سے
Comments
Post a Comment