لَدی جو پھولوں سے تھی شاخ آشیانے کی
لَدی جو پھولوں سے تھی شاخ آشیانے کی
وہی ہوا کہ نظر لَگ گئی زمانے کی
زَمیں دُہائی ہے اے آسماں دُہائی ہے
مِٹے ہوؤں کو بھی کوشش ہے اب مِٹانے کی
نصیحتیں تری ناصح مِرے سَر آنکھوں پر
جو خود کِسی کو ضرورت ہو دِل لگانے کی ۔۔؟
جفا بھی کرتے ہیں احسان بھی جتاتے ہیں
کہ جیسے ہم کو غرض ہے سِتم اُٹھانے کی
مَزے کی نیند تھی سَر تھا کِسی کے زانو پر
یہی گھڑی تھی اِلٰہی قَضا کے آنے کی
وہ سنگِ راہ سہی سنگِ آستاں نہ سَہی
صلاحیت بھی تو ہو قِسمت آزمانے کی
جو اتفاق سے کُھل بھی گیا قَفس کا دَر
تو پہلے آگ نظر آئی آشیانے کی
تھا ایک ظاہر و باطن نہ مَکر تھا نہ فریب
سِراج ہائے وہ اگلی رَوش زمانے کی
Comments
Post a Comment