مجوسی کی قبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ کسی مجوسی صوفی کا مزار تھا، ہر سال وہاں میلہ لگتا، چادریں چڑھتی، منت مرادیں مانگی جاتی، نذر و نیازیں دی جاتی،
اس مزار کے بارے یہ مشہور تھا، کہ وہ جانور خچر اور گھوڑے جو اس بیماری میں مبتلا ہوں کہ ان کا پاخانہ رک گیا ہو، اس مزار پر ایک بار لے جانے سے ہی ان کی بیماری دور ہو جاتی ہے،
وہی قریب کے علاقے میں اپنے وقت کا ایک بڑا عالم رہتا تھا، دنیا اسے ابن تیمیہ کے نام سے جانتی ہے،
شاگرد نے آ کر بتایا امام صاحب یہاں قریب کے علاقے میں ایک مجوسی کا مزار ہے، وہاں کہ بارے میں مشہور ہے کہ جانوروں کی وہ بیماری جس میں ان کا پاخانہ رک جاتا ہے، ایک بار اس مزار پر لانے سے ہی شفا مل جاتی ہے،
ابن تیمیہ نے کہا چلو چل کر دیکھتے ہیں،
مزار پر پہنچے لوگ گھوڑے خچر لیے آ رہے ہیں، اور ہوتا بھی یونہی بے کہ جو جانور وہاں آتا ہے اس کا پاخانہ آ جاتا ہے،
وہ وقت کا عالم تھا، کتاب و سنت کے وسیع علم کا مالک تھا، سوچتا ہے، اگر یہ بات ہے تو ضرور اس کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں موجود ہو گی،
سوچتے ہوئے وہ قرآن و سنت سے اس کی دلیل نکال لیتا ہے،
شاگرد کو کہا سب لوگوں کو جمع کرو، سب کو جمع کیا گیا،
پوچھا کیا تمہارے جانور واقع اس مزار پر حاضری دینے سے شفا یاب ہو جاتے ہیں،
سب کہتے ہیں بالکل سچ ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس مخصوص بیماری میں مبتلا جانور یہاں لایا جائے اور اسے شفا نہ ملے،
کہا سنو تمہارے جانوروں کو شفا کیوں ملتی ہے، اور یہ بھی سنو اس میں اس قبر والے کی کوئی کرامت نہیں،
.
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :
فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ غَیْرُ الثَّقَلَیْنِ
)بخاری مسلم(
’’) پس وہ مردہ اس مار سے(چیختا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا قریب کی تمام مخلوق سنتی ہے
.
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ وَنَحْنُ مَعَهُ إِذْ حَادَتْ بِهِ فَكَادَتْ تُلْقِيهِ وَإِذَا أَقْبُرٌ سِتَّةٌ أَوْ خَمْسَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ قَالَ كَذَا كَانَ يَقُولُ الْجُرَيْرِيُّ فَقَالَ مَنْ يَعْرِفُ أَصْحَابَ هَذِهِ الْأَقْبُرِ فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا قَالَ فَمَتَى مَاتَ هَؤُلَائِ قَالَ مَاتُوا فِي الْإِشْرَاكِ فَقَالَ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَى فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ مِنْهُ …
)صحیح مسلم کتاب الجنۃباب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار علیہ واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ
)حدیث نمبر ۷۲۱۳(
زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ )ایک بار( جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اچانک خچر بد کا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے ناگہاں پانچ، چھ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان قبروں کے اندر جو لوگ ہیں کوئی ان کو جانتا ہے ایک شخص نے کہا میں جانتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس حال میں مرے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا شرک کی حالت میں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے ۔اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم )مردو ں کو( دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ تعالیٰ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر سنا دے جسطرح میں سنتا ہوں‘‘
.
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا، اس قبر والے مجوسی کو عذاب قبر دیا جا رہا ہے، اور رسول پاک کے فرمان کے مطابق انسانو اور جنوں کے علاوہ ہر مخلوق اس عذاب کو سنتی ہے جو اس کے قریب ہو،
تمہارے جانور اس قبر والے پر عذاب سنتے ہیں اور خوف کے مارے ان کے جسم میں کپکی طاری ہوتی ہے، جس سے ان کا پاخانہ کھل جاتا ہے،
کہا جاؤ، یہ قریب ہی ایک بہت بڑے عالم اور ولی اللہ، امام شافعی کی قبر ہے،
اپنے جانوروں کو ان کی قبر پر لے جاؤ، ان کے پاخانے کبھی نہیں نکلے گے،
کیونکہ ان کی قبر میں عذاب نہیں ہو رہا بلکہ ان کی قبر جنت کا باغ ہو گی،
اس لیے وہاں تمہارے جانور نہ عذاب قبر سنے گے نہ خوف کے مارے بدکے گے نہ ان کے پاخانے نکلے گے،
Comments
Post a Comment