تجھے اپنے جذبِ دل پر اگر اعتبار ہوتا

تجھے اپنے جذبِ دل پر اگر اعتبار ہوتا
کوئی قافلہ یقیناً پسِ ہر غبار ہوتا
تری چاہتوں پہ مجھ کو جو نہ اعتبار ہوتا
ترے نام پر مرا دل یوں نہ بے قرار ہوتا
سرِ شام مجھ سے ملنا جو ترا شعار ہوتا
سرِ شام ہی سے مجھ کو ترا انتظار ہوتا
تری یاد او ستمگر! نہ اڑاتی میری نیندیں
مرے خواب کا تسلسل مرا اعتبار ہوتا
میں جہاں قیام کر لوں اسے روک لوں وہاں پر
مرے دل پہ کاش اتنا مجھے اختیار ہوتا
یہ جدائیوں کے لمحے یوں وبالِ جاں نہ ہوتے
مری بات مان لیتے تو نہ دل پہ بار ہوتا
مرے دل میں چاہتوں کے شب و روز پھول کھلتے
جو درونِ دل لہو کا کوئی آبشار ہوتا
تری بے رخی نے آخر مرا دل کیا مخالف
تو ستم اگر نہ ڈھاتا ترا جانثار ہوتا
میں فصیحؔ سوچتا ہوں، یہ حیات کیسے کٹتی
اگر ارد گرد ہر سو کوئی ریگزار ہوتا​

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

یہ مست مست بے مثال آنکھیں