Posts

Showing posts from October 23, 2016

Wo Aksar Mujh Se Kehti Thi

Wo Aksar Mujh Se Kehti Thi Wafa Hai Zaat Aurat Ki Magar Jo Mard Hote Hain Bohat Be-Dard Hote Hain Kisi Bhanwre Ki Soorat Gul Ki Khushbu Loot Lete Hain Suno Tum Ko Qasam Meri! Riwaayat Tor Dena Tum Na Tanha Chhor Dena Tum Na Ye Dil Tor Ke Jaana Magar Phir Yun Hua Hamdam! Mujhe Anjaan Raste Par Akela Chhor Kar Us Ne Mera Dil Tor Kar Us Ne Muhabbat Chhor Di Us Ne Wafa Hai Zaat Aurat Ki Riwaayat Tor Di Us Ne....!!!!!

Hawa thami thi zaroor lekin,

Image
Hawa thami thi zaroor lekin, Wo sham jaise sisak rahi thi, K zard patton ne aandhion se, Ajeeb Qissa suna dia tha, K jisko sun kar tamam patte, Sisak rahe thay Biluk rahe thay, Jane kis sanihey k ghum mein, Shajar jarron se ukharr rahe thay, Bohat talasha tha ham ne tumko, Har aik rasta, Har aik wadi, Har aik parbt, Har aik ghati, Magar kahein se khabr na aai, Ye keh k hum ne dilko tala, Hawa thame gi to daikh lain gay, Hum us k raston ko dhond lain gay, Magar hamari ye khush khayali, Jo hum ko barbad kar gai thi, Hwa thami thi zaroor lekin, Bari hi mudat guzar chuki thi, Hamare balon k junglon mein, Sufaid chandi utar chuki thi, Falak pe taare nahi rahe thay, Gulab saare nahi rahe thay, Wo jin se basti thi dilki basti Wo log saare nahi rhe thay, Magar Ye almiya sab se bala-tar tha, K hum tumhare nahi rahe thay, K tum hamare nahi rahe thay, Hawa thami thi zaroor lekin, Bari hi mudat guzar chuki thi!!

Andheri raat mein Jugnu,

Andheri raat mein Jugnu, Sitaray dhoondtey rehna,, Bhanwar mein sub pe hey wajib hai  kinaray dhoondtey rehna,, Kabhi Deewar se rishta  kabhi dar thaam letey hain,, Ajab Qismat ghareebon ki Saharay dhoondtey rehna,, Mohabbat karne walon k Taqaazay bhe nirallay hain,, Munaafa bakhshtay rehna khasaray dhoondtey rehna,, Tumhein jo Shoq he Qissay praeay parrhtay rehney ka,, Kabhi Taareekh likhe gi Hmaaray, dhoondte rehna...

ﺍﺟﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﻣﺸﺎﻋﺮﮦ ﺗﮭﺎ

ﺍﺟﻤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﻣﺸﺎﻋﺮﮦ ﺗﮭﺎ، ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﮕﺮ ؔﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ، ﻭﮦ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭﻧﻌﺘﯿﮧ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺮﮐﺖ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﮔﺮ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎﻧﺎﻡ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺸﺎﻋﺮﮦ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ۔ ﻣﻨﺘﻈﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﺨﺖ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﭘﯿﺪﺍﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺧﻼﻑ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺟﮕﺮؔ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﮨﯽ ﺑﮍﺍ ﺍﺧﺘﻼﻓﯽ۔ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺷﯿﻮﺥ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺭﻑ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺷﺮﺍﺏ ﻧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻻﺋﻖ ﺍﺻﻼﺡ۔ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﮨﺎﺋﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺲ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﮯ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺗﮭﮯ ﺷﺮﺍﺑﯽ۔ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﻋﺎﯾﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﯾﺪ ﻋﻮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﻌﺘﯿﮧ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏ ﮨﻮﮞ۔ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻨﺘﻈﻤﯿﻦ ﻣﺸﺎﻋﺮﮦ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﮕﺮ ؔﮐﻮ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ﯾﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺮﺍﺕ ﻣﻨﺪﺍﻧﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺟﮕﺮؔ ﮐﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﮐﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﺍﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎﺗﮭﺎ۔ﺟﮕﺮؔ ﮐﻮ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮﻭﮦ ﺳﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﮐﺎﻧﭗ ﮔﺌﮯ۔ ’’ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﺪ، ﺳﯿﮧ ﮐﺎﺭ، ﺑﺪ ﺑﺨ

اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے

اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی ۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔ دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں ۔ سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے ۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں ۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا ۔ کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے ؟؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتاکیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ

قرض

قرض میرا باپ ننگا تھا میں نے اپنے کپڑے اُتار کر اُسے دے دئے زمین بھی ننگی تھی میں نے اُسے اپنے مکان سے داغ دیا شرم بھی ننگی تھی میں نے اُسے آنکھیں دیں پیاس کو لمس دئے اور ہونٹوں کو کیاری میں جانے والے کو بو دیا موسم چاند لئے پھر رہا تھا میں نے موسم کو داغ دے کر چاند کو آزاد کیا چتا کے دھُوئیں سے میں نے انسان بنایا اور اُس کے سامنے اپنا من رکھا اُس کا لفظ جو اُس نے اپنی پیدائش پر چُنا اور بولا ! میں تیری کوکھ میں ایک حیرت دیکھتا ہوں میرے بدن سے آگ دُور ہوئی تو میں نے اپنے گناہ تاپ لئے میں ماں بننے کے بعد بھی کنواری ہوئی اور میری ماں بھی کنواری ہوئی اب تم کنواری ماں کی حیرت ہو میں چتا پہ سارے موسم جلا ڈالوں گی میں نے تجھ میں رُوح پھونکی میں تیرے موسموں میں چُٹکیاں بجانے والی ہوں مٹی کیا سوچے گی مٹی چھاؤں سوچے گی اور ہم مٹی کو سوچیں گے تیرا انکار مجھے زندگی دیتا ہے ہم پیڑوں کے عذاب سہیں یا دُکھوں کے پھٹے کپڑے پہنیں

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے میرے ماضی کو اندھیروں مین دبا رہنے دو میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں میروں امید کا حاصل، مری کاوش کا صلہ ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر کتنی بے ربط تمناؤں کے مبہم خاکے اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو مجھ کو کہنے دو کہ میں نے انہیں چاہا ہی نہیں اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں میں نے ان مست نگاہوں کو سراہا ہی نہیں مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں عشق ناکام سہی، زندگی ناکام نہیں ان کو اپنانے کی خواہش، انہیں پانے کی طلب شوقِ بے کار سہی، سعئ غم انجام نہیں وہی گیسو، وہی نظریں، وہی عارض، وہی جسم میں جو چاہوں تو مجھے اور بھی مل سکتے ہیں وہ کنول جن کو کبھی ان کے لئے کھلنا تھا ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہیں ساحر لدھیانوی

انصاف

انصاف کہانی 13 دسمبر 2012ء سے شروع ہوتی ہے۔ عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پلا سعودی شاہی خاندان کا نوجوان شہزادہ اپنےدوستوں کے ساتھ سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے شمال میں واقع سیاحتی مقام ”ثمامہ“ کی طرف جاتا ہے۔ شہزادے کی گاڑی کے ساتھ اس کے دوستوں کی دوگاڑیاں بھی تھیں۔ ایک گاڑی میں شہزادے کا دوست عادل المحمید تھا۔ ثمامہ کےسیاحتی مقام پر اسلحہ سے لیس چند نوجوانوں میں جھگڑا چل رہا تھا، جن میں اسلحہ کا بلیک ڈیلر حداد نامی شخص بھی تھا۔ شہزادے کے دوست صورتحال کا اندازہ کرنے گاڑی سے نیچے اترتے ہیں۔ اچانک زبردست فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان شہزادے نے بھی اپنی پسٹل سے اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ایک گولی شہزادے کے دوست عادل المحمید کو جا لگی، جو بعد میں عادل کے پیچھے کھڑے شہزادے کے دوسرے دوست عبدالرحمن التمیمی کو بھی لگی۔ نتیجتا شہزادہ کا دوست عادل موقع پر جاں بحق ہوگیا اور دوسرا دوست بری طرح زخمی ہوگیا۔ پولیس موقع پر پہنچتی ہے، شہزادے سمیت وہاں موجود لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس دوران شہزادے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا دوست عادل اس کی گولی سے مارا گیا تو وہ سخت صدمے سے دوچار ہوت
Image
بلہے شاہ اساں جوگی ھوئے ساڈے سپاں نال یارانے ساڈے انگ انگ زہراں چڑھیاں ساڈا درد کوئی نہ جانے

پرانے زمانے کی بات ھے ،،

پرانے زمانے کی بات ھے ،، ایجکویشن انسپکٹر صاحب اسکول کے دورے پر تشریف لائے تو سیدھا کلاس میں تشریف لے گئے ،،، اتنی دیر میں ھیڈ ماسٹر اور کلاس ٹیچر بھی دوڑتے ھوئے موقع پر پہنچے ،، بچو ایک سوال کا جواب دو ،،ای ڈی آئی صاحب نے کہا ، ایک ٹرین 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رھی ھے ، جس اسٹیشن پر اس نے رکنا ھے وہ تین میل کے فاصلے پر ھے ،آپ بتایئے میری عمر کیا ھے ؟ بچے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے کسی نے بھی ہاتھ کھڑا نہ کیا ،،، کلاس ٹیچر نے سفارش کی کہ سر بچے ھیں سوال سمجھ نہیں سکے ،پلیز سوال ایک دفعہ پھر دھرا دیجئے ،، ایک ٹرین 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آ رھی ھے ، جس اسٹیشن پر اس نے رکنا ھے وہ تین میل کے فاصلے پر ھے ،آپ بتایئے میری عمر کیا ھے ؟ انسپکٹر صاحب نے سوال پھر دھرا دیا ،، نتیجہ پھر وھی تھا کہ بچے کبھی اپنے ماسٹروں کا منہ دیکھیں اور کبھی ایک دوسرے کا ،، سر اصل میں آج کل گرمی بہت ھے اور ھمارے اسکول میں پنکھے بھی نہیں ھیں بچے سوال کو سمجھ نئیں سکے آپ مہربانی کر کے پھر سوال کو دھرا دیجئے ،ھیڈ ماسٹر نے بھی سفارش کا ڈول ڈال دیا ،، انسپکٹر صاحب نے سوال پھر دہرا دیا کہ ،، ایک ٹرین 100

پاس ہوتا ہے دور ہوتا ہے

پاس ہوتا ہے دور ہوتا ہے وہ شبِ غم ضرور ہوتا ہے دل میں اُن کا ظہور ہوتا ہے میرا سینہ بھی طور ہوتا ہے کچھ حقیقت نہ ہو محبت کی نشہ سا اک ضرور ہوتا ہے سجدہ کرتا ہوں اُن کو مستی میں کتنا رنگیں قصور ہوتا ہے تیرا قشقہ ارے معاذ اللہ شامِ دارالسرور ہوتا ہے جتنا اُسکی طرف میں کھینچتا ہوں اور وہ مجھ سے دور ہوتا ہے تیری آنکھیں ارے معاذ اللہ بے پئے بھی سرور ہوتا ہے کیا حدیثِ نقاب و رُخ کہئے نور بالائے نور ہوتا ہے ہم بھی چاہیں جو غم سے تنگ آکر تو کہاں دل سے دور ہوتا ہے جب بھی آتا ہے بزم میں ساغر نشہ میں چُور چُور ہوتا ہے​ ساغر نظامی

ــ جھوٹ مت بولو..

ایک شہزادہ اپنے استاد سے سبق پڑھ رہا تھا.. استاد نے اسے دو جملے پڑھائے.. 1 ــ جھوٹ مت بولو.. 2 ــ غصہ نہ کرو.. کچھ دیر کے وقفے کے بعد شہزادے کو سبق سنانے کو کہا گیا تو شہزادے نے جواب دیا کہ ابھی سبق یاد نہیں ھوسکا.. دوسرے دن پھر استاد نے سبق سنانے کو کہا.. شہزادے نے پھر عرض کیا کہ ابھی سبق یاد نہیں ھوسکا.. تیسرے دن چھٹی تھی.. استاد نے کہا کہ کل چھٹی ھے لہذا کل لازمی سبق یاد کر لینا.. بعد میں میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا.. چھٹی کے بعد اگلے دن بھی شاگرد خاص سبق سنانے میں ناکام رہا.. استاد یہ خیال کیے بغیر کہ شاگرد ایک شہزادہ ھے , طیش میں آکر ایک تھپڑ رسید کردیا کہ یہ بھی کوئی بات ھے کہ اتنے دنوں سے دو جملے یاد نہیں ھوکر دے رہے.. تھپڑ کھا کر ایک دفعہ تو شہزادہ گم سم ھوگیا.. پھر بولا کہ استاد محترم ! سبق یاد ھوگیا.. استاد کو بہت تعجب ھوا کہ پہلے تو سبق یاد نہیں ھورہا تھا اور تھپڑ کھاتے ہی فوری سبق یاد ھوگیا.. شہزادہ عرض کرنے لگا کہ استاد مُحترم ! آپ نے مجھے دو باتیں پڑھائی تھیں.. 1 ـ جھوٹ نہ بولو.. 2 ـ غصہ نہ کرو.. جھوٹ بولنے سے تو میں نے اسی دن توبہ کرلی تھی لیکن غصہ نہ کرو ___ یہ مشکل ک

دِل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو

دِل ہجر کے درد سے بوجھل ہے، اب آن ملو تو بہتر ہو اِس بات سے ہم کو کیا مطلب، یہ کیسے ہو، یہ کیونکر ہو اِک بھیک کے دونوں کاسے ہیں، اِک پیاس کے دونوں پیاسے ہیں ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو، ہم ندیا ہیں تم ساگر ہو یہ دِل ہے کہ، جلتے سینے میں اِک درد کا پھوڑا الہڑ سا ناگپت رہے، نا پُھوٹ بہے، کوئی مرہم ہو، کوئی نشتر ہو ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں، تم چڑھتی رات کی چندرما ہم جاتے ہیں، تم آتے ہو، پھر مَیل کی صُورت کیونکر ہو اب حُسن کا رتبہ عالی ہے، اب حُسن سے صحرا خالی ہے چل بستی میں بنجارہ بن، چل نگری میں سوداگر ہو جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے، جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے وہ سونا ہے، وہ ہیرا ہے ! وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو اب انؔشا جی کو بلانا کیا ، اب پیار کے دیپ جلانا کیا جب دُھوپ اور چھایا ایک سے ہوں ، جب دن اور رات برابر ہو وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں، وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں اب سُکھ کے سپنے کیا دیکھیں، جب دُکھ کا سُورج سر پر ہو ابن انشا