Posts

Showing posts from November 3, 2016

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جس کا نام تبسم تھا

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جس کا نام تبسم تھا اس کی شادی ہوئی وہ سسرال میں اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ رہتی تھی- بہت کم وقت میں ہی تبسم کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی- ان دونوں کی شخصیت بالکل مختلف تھی اور تبسم اپنی ساس کی بہت ساری عادتوں سے پریشان تھی- اس کی ساس ہر وقت تبسم پر طنز کرتی رہتی تھیں جو اسے بہت ناگوار گزرتا تھا- آہستہ آہستہ دن اور پھر ہفتے بیت گئے لیکن تبسم اور اس کی ساس کی تکرار ختم نہ ہوئی- ان تمام نااتفاقیوں نے گھر کا ماحول بہت خراب کردیا تھا جسکی وجہ سے تبسم کا شوہر بہت پریشان رہتا تھا- آخرکار تبسم نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ساس کا برا رویہ اور برداشت نہیں کریگی اور وہ اب ضرور کچھ نہ کچھ کرے گی- تبسم اپنے پاپا کے ایک بہت اچھے دوست احمد انکل کے پاس گئی جو جڑی بوٹیاں بیچتے تھے- تبسم نے انھیں ساری کہانی بتائی اور ان سے کہا کہ وہ اس کو تھوڑا سا زہر دے دیں تاکہ ہمیشہ کے لئے یہ مسئلہ ختم ہوجائے- احمد انکل نے تھوڑی دیر کیلئے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ تبسم میں اس مسئلے کو حل کرنے میں تمہاری مدد کرونگا لیکن تمہیں ویسا ہی کرنا ہوگا جیسا میں تمہیں

بادشاہ اور قیدی کے درمیان مکالمہ

بادشاہ اور قیدی کے درمیان مکالمہ★ ☆روم کے بادشاہ ہرقل اور ایک مسلمان قیدی کے درمیان مکالمہ☆ ☆حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لی، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔عبد اللہ بن حذافہ کو گھسیٹ کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گئے، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا:- قیصر: نصرانیت قبول کر لے تمہیں رہا کر دوگا عبد اللہ: نہیں قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا عبد اللہ: نہیں قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تمہیں حکمرانی میں شریک کروں گا عبد اللہ: نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباواجداد کی مملکت، عرب وعجم کی حکومتیں بھی دے میں پلک جھپکنے کے لیے بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔ قیصر غضبناک ہوا اور کہا : تجھے

تصوف -2 (تصوف کیا ہے؟)

تصوف -2 (تصوف کیا ہے؟) دوستو، میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی آپکو بتایا ہے کہ میرے آنے پر یہ 'کلاس سٹینڈ' اور 'کلاس سِٹ' نہ کیا کریں، مجھے برا لگتا ہے. چلیں بیٹھ جائیں شاباش . کل کا سبق آپ نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے تو آج مسئلہ نہیں ہوگا. پتہ ہے لوگ کیا کہتے ہیں؟ وہ جی فلاں نے کہا کہ اللہ والے صوف (اون) کا لباس پہنا کرتےتھے، تو انہیں صوفی کہا جانے لگا اور یوں یہ تصوف بنا۔۔ میں نے کہا، بھئی تب تو رواج ہی موٹے کھدر کا تھا، مشینی دور تو تھا نہیں کہ نرم اور کاٹنی لباس بنایا جا سکے، آج جو بندہ پھٹے اور موٹے کپڑے پہن کر ملنگ بن جائے کیا وہ صوفی ہو جائیگا؟۔۔ فلاں کہتا ہے کہ تصوف صفا سے ہے، یا صفہ سے ہے، یا الصفو سے ہے. یار چھوڑ دو سب فلانوں کو، اسکا لفظی مطلب کوئی بھی ہو، اس میں شک نہیں کہ یہ دینِ اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے. اس کی اساس نیت اور عمل میں خلوص پر ہے۔۔قرآن کریم کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی زبان میں ہوا جس طرح ہم صلوٰۃ کو اردو میں نماز، اور صوم کو روزہ کہتے ہیں، اسی طرح فارسی میں 'تزکیہ' کو تصوف لکھ دیا گیا، بس اتنی سی بات ہے جس کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے. اب کوئی آپ سے ک

ک معززخاتون کی شادی اسماعیل نامی شخص سے ہوئی۔ا

ایک معززخاتون کی شادی اسماعیل نامی شخص سے ہوئی۔اسماعیل ایک متقی شخص اور جلیل القدر عالم تھے۔انہوں نے امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شاگردی اختیار کی۔اس مبارک شادی کا پھل میاں بیوی کوایک نامی گرامی بچےکی صورت میں ملاجس کانام انہوں نے"محمد"رکھا۔شا دی ہوئے ابھی کچھ ہی سال گزرےتھے کہ اسماعیل بیوی اور چھوٹے بچےکوداغ مفارقت دےگئےاور وراثت میں کافی دولت چھوڑگئے۔ والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت میں جت گئیں۔ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم بن کر افق عالم پر چمکے اوراپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کردے لیکن ان کی حسرت و یاس کا اس وقت کوئی ٹھکانا نہ رہا جب ان کے بچے کے مستقبل میں ترقی اور انکی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔بچپن ہی میں یہ بچہ اپنی بینائی سے ہاتھ دھوبیٹھا اب نابینا ہونے کی صورت میں یہ بچہ حصول تعلیم کے لیے علماء کے دروس میں شرکت سے معذور تھا اور نہ وہ حصول علم کےلیے دوسرے شہروں کاسفراختیارکرسکتاتھا۔ماں کا یہ غم کھائےجارہاتھاکہ آخراس بچےکا کیا ہوگا۔عالم دین کیوں کر بن سکےگا۔بینائی کےبغیرعلم کاحصول کیسےممکن ہے؟۔ اس خواہش کی تکمیل

چمن روئے ہنسے شبنم بیاباں پر نکھار آئے

چمن روئے ہنسے شبنم بیاباں پر نکھار آئے اکِ ایسا بھی نیا موسم میرے پروردگار آئے وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے اسی کو موت کہتے ہیں تو یارب بار بار آئے سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن یہ گزارش ہے وہاں منہ پھیر کے رونا جہان میرا مزار آئے بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اِک آنسوُ ندامت کا جسے دامن پہ لینے رحمتِ پروردگار آئے قفس کے ہو لئے ہم تو مگر اے اہلِ گلشن تم ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے نہ جانے کیا سمجھ کر چپ ہوں اے صیّاد میں ورنہ وہ قیدی ہوں گرچہ ہوں قفس میں بھی بہار آئے قمرؔ دل کیا ہے میں تو ان کی خاطر جان بھی دیدوں میری قسمت اگر ان کو نہ پھر بھی اعتبار آئے..

زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے

زخم کی بات نہ کر زخم تو بھر جاتا ہے تیر لہجے کا کلیجے میں اُتر جاتا ہے موج کی موت ہے ساحل کا نظر آ جانا شوق کترا کے کنارے سے گزر جاتا ہے شعبدہ کیسا دِکھایا ہے مسیحائی نے سانس چلتی ہے، بھلے آدمی مر جاتا ہے آنکھ نہ جھپکوں تو سب ناگ سمجھتے ہیں مجھے گر جھپک لوں تو یہ جیون یوں گزر جاتا ہے مندروں میں بھی دُعائیں تو سنی جاتی ہیں ! اشک بہہ جائیں جدھر، مولا اُدھر جاتا ہے حسن اَفزا ہوئی اشکوں کی سنہری برکھا پھول برسات میں جس طرح نکھر جاتا ہے غالباً تخت پہ جنات کا سایہ ہو گا! کچھ تو ہے ہر کوئی آتے ہی مکر جاتا ہے ’’ایسی‘‘ باتیں جو ’’اکیلے‘‘ میں نہ ’’دیوانہ‘‘ کرے بادشہ وہ بھرے دربار میں کر جاتا ہے گر نہ لکھوں میں قصیدہ تو ہے تلوار اَقرب سر بچا لوں تو مرا ذوقِ ہنر جاتا ہے قیس! گر آج ہیں زندہ تو جنوں زندہ باد! #سوچنے_والا تو اِس دور میں مر جاتا ہے

ایک بہترین قابلِ نصیحت قصہ

--=* ایک بہترین قابلِ نصیحت قصہ * =- - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -  سلطان مراد نے ایک رات بڑی گھٹن اور تکلیف میں گزاری ، لیکن وہ اس کا سبب نہ جان سکا ، اس نے اپنے سیکورٹی انچارج کو بلایا اس کو اپنی بےچینی کی خبر دی ، بادشاہ کی عادت تھی ، کہ وہ بھیس بدل کر عوام کی خفیہ خبرگیری کرتا تھا ، کہا چلو چلتے ہیں اور کچھ وقت لوگوں میں گزارتے ھیں ، شہر کے ایک کنارے پر پہنچے تو دیکھا ایک آدمی گراپڑا ھے ، بادشاہ نے اسے ھلا کر دیکھا تو مردہ انسان تھا ، لوگ اس کے پاس گزرے جارھے تھے ، بادشاہ نے لوگوں کو آواز دی ادھر آؤ بھئی لوگ جمع ھوگئے اور وہ بادشاہ کو پہچان نہ سکے ، پوچھا کیا بات ھے بادشاہ نے کہا آدمی مرا ھوا ھے اس کو کسی نے کیوں نہیں اٹھایا کون ھے یہ اور اس کے گھر والے کہاں ھیں لوگوں نے کہا یہ زندیق شخص ھے بڑا شرابی اور زانی آدمی تھا ، بادشاہ نے کہا کیا یہ امت محمدیہ میں سے نہیں ھے چلو اس کو اٹھاؤ اور اس کے گھر لے چلو لوگوں نے میت گھر پہنچا دی اس کی بیوی نے خاوند کی لاش دیکھی تو رونے لگی لوگ چلے گئے بادشاہ اور اس کا سیکورٹی انچارج وہیں کھڑے عورت کا رونا سنتے ر

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے ادھی ادھی راتیں اُٹھ ــــ رون موئے مِتراں نوں ــــ مائیں سانوں نیند نہ پوے بھیں بھیں سوگندھیاں اچ ــــ بنھاں پھہے چاننی دے ــــ تاں وی ساڈی پِیڑ نہ سہوے کوسے کوسے ساہواں دی میں ــــ کراں جے ٹکور مائیں سگوں سانوں کھان نوں پوے آپے نی میں بالڑی ہاں ـــ حالے آپے متاں جوگی ــــ مت کہڑا ایس نوں دوے آکھ سُونی مائیں ایہنوں ــــ رووے بُل چِتھ کے نی جگ کِتے سُن نہ لوے آکھ سُونی کھائے ٹُک ــــ ہجراں دا پکیا ــــ لیکھاں دے نی پُٹھڑے توے چٹ لے تریل لُونی ــــ غماں دے گُلاب توں نی کالجے نوں حوصلہ رہوے کہڑیاں سپیریاں توں ــــ منگاں کُنج میل دی میں ــــ میل دی کوئی کُنج دوے کہڑا ایہناں دماں دیاں ـــــ لوبھیاں دے دراں اُتے وانگ کھڑا جوگیاں رہوے پِیڑے نی پِیڑے ــــ پیار ایسی تتلی ہے ـــــ جہڑی سدا سُول تے بہوے پیار ایسا بھور ہے نی ـــــ جہدے کولوں آشنا وی لکھاں کوہاں دُور ہی رہوے پیار او محل ہے نی ـــــ جہدے وچ پنکھواں دے ــــ باجھ کجھ ہور نہ رہوے پیار ایسا آنگناں ہے ــــ جہدے وچ وصلاں دا رتڑا نہ پلنگ ڈھوے آکھ مائیں ادھی ادھی ــــ راتیں موئے

تھک کے بیٹھوں، تو مجھے رستہ نظر آئے گا

تھک کے بیٹھوں، تو مجھے رستہ نظر آئے گا شام اِس دشت میں گزرے گی تو گھر آئے گا سوچ کر میری محبت میں قدم رکھنا تم اِس سے آگے تو بہت لمبا سفر آئے گا منتظر آنکھیں کسی طاق میں بجھ جائیں گی کوئی ہو گا ہی نہیں، کوئی اگر آئے گا سیکھ جاؤں گا ترے بعد بھی جینا لیکن مجھ کو اے دوست ترے ھجر سے ڈر آئے گا مجھ تک آتے ہوئے دنیا اُسے روکے گی بہت رک بھی جائے گا کسی راہ میں، پر آئے گا عمر کے دن تو اِسی آس میں کٹ جاتے ہیں رات ڈھل جائے گی اور وقتِ سحر آئے گا وقت کی قید سے آزاد ، مہ و سال سے دور اِک زمانہ ہے کہ جو بارِ دگر آئے گا

عہدِ وفا سے وصل کا لمحہ جدا کرو

عہدِ وفا سے وصل کا لمحہ جدا کرو منزل سے گرد،گرد سے رستہ جدا کرو میں تھا کہ اپنے آپ میں خالی سا ہو گیا اس نے تو کہہ دیا مرا حصّہ جدا کرو اس فکرِ بیش و کم کو بھلا کر کبھی،مجھے جتنی جدائ شرط ہے ، اتنا جدا کرو شب زادگاں!تم اہلِ نظر سے نہیں،سو تم اپنا مدار ، اپنا مدینہ جدا کرو اک نقش ہو نہ پاۓ ادھر سے ادھر مرا جیسا تمہیں ملا تھا میں ، ویسا جدا کرو

پھر ذکرِ زلف و کاکلِ شب گوں کروں ہوں میں

پھر ذکرِ زلف و کاکلِ شب گوں کروں ہوں میں افسانہ چھیڑتا ہوں کہ افسوں کروں ہوں میں تا آئے کچھ بہار کے چہرے پہ آج رنگ صحنِ چمن میں جا کے جگر خُوں کروں ہوں میں حُسنِ بیاں یہ لطفِ زباں غیر میں کہاں؟ تیرے لبوں سے مصرعے موزوں کروں ہوں میں یوسفؑ ہوں اور مجھ کو برادر عزیز ہیں پیغمبری یہی ہے کہ ممنوں کروں ہوں میں ان بے حقیقتوں سے کہوں بھی تو کیا کہوں؟ یہ بھی کرم سمجھ کہ جو ہُوں ہُوں کروں ہوں میں مجھ سے خدا ہی خوش ہے نہ راضی صنم ہوئے میں دل کا بادشاہ جو چاہوں کروں ہوں میں دیتا ہوں دلبروں کو ہزاروں طرح فریب کیا کیا تلاش دیکھ تو مضموں کروں ہوں میں کیوں کر نہ مجھ سے دار و رسن کی ہو آبرو وہ حق پرست ہوں کہ جو کہہ دوں کروں ہوں میں آئینہء جمال مری خاک ہے مجھے میں اور نگاہ جانبِ گردوں کروں ہوں میں!! طاہرؔ گدائے کوئے نگارانِ جھنگ ہوں انکارِ فیض و لطفِ ہمایوں کروں ہوں میں

اگر دونوں طرف سورج ترازو میں نہیں ہوتا

اگر دونوں طرف سورج ترازو میں نہیں ہوتا ترا سایا مرے سایے کے پہلو میں نہیں ہوتا وفاداری کا دعوا گریہ و زاری سے کیا کرنا نمک جو خون میں ہوتا ہے آنسو میں نہیں ہوتا تو کیا تم ہجر کے لغوی معانی میں مقیّد ہو تو کیا تم کہ رہی ہو پھول خوشبو میں نہیں ہوتا مجھے اچھا کہاں لگتا ہے بیساکھی میں ڈھل جانا مگر میرا شمار اب دست و بازو میں نہیں ہوتا مجھے معلوم ہے کچھ راگ بے موسم نہیں ہوتے مگر سازینہ _ دل میرے قابو میں نہیں ہوتا کوئی کوئی جنوں میں غرق _ غیرت ہو کے مٹتا ہے یہ دریاے حیا ہر ایک چلّو میں نہیں ہوتا سہارا ہو نہ ہو میں ناؤ لے جاؤں گا ساحل تک ہنر ملاح میں ہوتا ہے چپو میں نہیں ہوتا مسافت منتظر ہے باپ کی پگڑی کے پیچوں میں یہ وہ ادراک ہے جو ماں کے پلّو میں نہیں ہوتا ہر اک امید کو لازم ہے اک زرخیز مایوسی اجالا رات میں ہوتا ہے جگنو میں نہیں ہوتا مجھے درویش کی اس رمز نے زندہ رکھا شاہد کہ زہر احساس میں ہوتا ہے بچھو میں نہیں ہوتا

خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے

خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے زمزمہ خواں گزر گئے، رقص کُناں گزر گئے وادیِ غم کے خوش خِرام، خوش نفَسانِ تلخ جام نغمہ زناں، نوا زناں، نعرہ زناں گزر گئے سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ صرصرِ بے اماں کے ساتھ دست فِشاں گزر گئے زہر بہ جام ریختہ، زخم بہ کام بیختہ عشرتیانِ رزقِ غم نوش چکاں گزر گئے تیری وفا کے باوجود، تجھ کو نہ پا کے بدگماں کتنے یقیں بچھڑ گئے، کتنے گماں گزر گئے مجمعِ مَہ وَشاں سے ہم زخمِ طَلَب کے باوجود اپنی کُلہ کَج کیے عِشوہ کُناں گزر گئے ہم نے خدا کا رد لکھا، نفی بہ نفی لا بہ لا ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گَراں گزر گئے رات تھی میرے سامنے فردِ حساب ِ ماہ و سال دن مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے خود نگَرانِ دل زدہ، دل زدَگانِ خود نِگَر کوچۂ اِلتفات سے خود نِگَراں گزر گئے کیا وہ بِساط اُلَٹ گئی؟ ہاں وہ بِساط اُلَٹ گئی کیا وہ جواں گزر گئے؟ ہاں وہ جواں گزر گئے. اب یہی طے ہُوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں آج ترے تکلّفات دل پہ گَراں گزر گئے

جس نے ہنسایا اس نے رلانا تو تھا مجھے

جس نے ہنسایا اس نے رلانا تو تھا مجھے اس عشق نے یہ دن بھی دکھانا تو تھا مجھے میں جانتا تھا میری اندھیروں سے جنگ ہے سو خود کو اک چراغ بنانا تو تھا مجھے یہ مختصر بھی تھی بڑی مشکل بھی تھی مگر اس زندگی سے کام چلانا تو تھا مجھے اچھا ہوا جہاں سے الجھنے میں کٹ گیا یوں بھی یہ وقتِ ہجر بِتانا تو تھا مجگے اہل جہاں کی ضد میں جہاں دار میں بنا ان کو مقام عشق دکھانا تو تھا مجھے اچھا ہوا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی تجھ سے ملے بغیر بھی جانا تو تھا مجھے تیمور اپنے درد کا احساس تب ہوا جب اس نے یہ کہا کہ بتانا تو تھا مجھے

خالص عطائے رب ہے، نہادہ نہیں ہے خاک

خالص عطائے رب ہے، نہادہ نہیں ہے خاک بکھری ہوئی ضرور ہے، سادہ نہیں ہے خاک مقتل کی سمت، سوچ سمجھ کر گیا تھا میں سر پر مرے، بغیرِ ارادہ نہیں ہے خاک بھرتا نہیں کبھی جو یہ زخمِ عزائے عشق شائد بدن میں خوں سے زیادہ نہیں ہے خاک نشّے سے کہہ رہا ہے مرا ساغرِ سفال دیکھا! حریفِ آتشِ بادہ نہیں ہے خاک آغوش میں سمیٹ سکے گی مرا وجود صحرائے نیست، ایسی کشادہ نہیں ہے خاک کب اہلِ جستجو کا مصلّیٰ نہیں زمیں کب اہلِ انکشاف کا جادہ نہیں ہے خاک شہہ مات ہو سکے اسے شاہِ نَبُود سے سُن لے بساطِ بُود، پیادہ نہیں ہے خاک ابتک صفاتِ عجز میں کامل نہیں فقیر ابتک مرے بدن کا لبادہ نہیں ہے خاک

خواب کدھر چلا گیا ؟ یاد کہاں سما گئی ؟

خواب کدھر چلا گیا ؟ یاد کہاں سما گئی ؟ چشم و چراغِ عشق کو کون ھوا بُجھا گئی ؟؟؟ ھجر تو جاگتا رھا رُوح کے درد زار میں جسم کی خواب گاہ میں وصل کو نیند آ گئی وقت نے ختم کردیے سارے وسیلے شوق کے دل تھا، اُلٹ پلٹ گیا ! آنکھ تھی، بُجھ بُجھا گئی نرم لبوں سے سخت بات ایسے ادا ھوئی کہ بس شہد میں مل گیا نمک، دن میں ھی رات چھا گئی رنگ برنگ تتلیو ! اب کسے ڈھونڈتی ھو تُم ؟ خوشبو کو لے گئی ھوا، پھول کو خاک کھا گئی ھم تو بس اچھے دوست تھے، ھم تو بس اچھے دوست ھیں پھر یہ ھمارے درمیاں پریت کہاں سے آگئی ؟ ایک تمہارے دل میں تھا، ایک تھا میری آنکھ میں آندھی چلی فراق کی ، دونوں گھروندے ڈھا گئی جسم تو خیر جسم تھا، جسم کا تذکرہ ھی کیا ایک نگاہ میں وہ آنکھ رُوح کے بھید پا گئی بُھولی ھوئی صدا کا چاند صحن میں چمکا ؟ یا بُجھا ؟ گذرے ھوئے دنوں کی یاد دھیان میں آئی ؟ یا گئی ؟ صبر کی رھگزار پر ایسے مِلی شبِ طلب مُجھ کو بھی ڈگمگا دیا، آپ بھی لڑکھڑا گئی چشمِ زدن میں دو جہاں جیسے اُلٹ کے رہ گئے آنکھ جُھکی تو حشر اُٹھا، آنکھ اُٹھی تو چھا گئی

دیوار دیکھتا ہے ؟ دیا دیکھتا ہے دوست ؟

دیوار دیکھتا ہے ؟ دیا دیکھتا ہے دوست ؟ یہ اتنے انہماک سے کیا دیکھتا ہے دوست ؟؟ نظریں کچھ اور بھی ہیں اسی شغل میں شریک .. ایسا نہیں کہ صرف خدا دیکھتا ہے دوست .. اپنی کہیں خبر تو نہیں ہو گئی تجھے ؟؟؟ یہ آج کل تو مجھ کو بڑا دیکھتا ہے دوست ..! دشت - وجود ہے ،سو جہاں مرضی گھوم پھر .. یاں کون تجھ کو تیرے سوا دیکھتا ہے دوست ..! خود اپنا دیکھنا ہی مجھے کم کٹھن تھا کیا . اس پر یہ آینہ بھی جدا دیکھتا ہے دوست..! میرے تئیں یہ نقص ہے ،خوبی نہیں جو تو . دنیا کو اہل - دل سے ورا دیکھتا ہے دوست.. سچ سچ بتا کہ اب سے برس دو برس کے بعد.. خود کو تو کس کے پاؤں پڑا دیکھتا ہے دوست؟؟ پانی تجھے حبیب ہے ،مٹی تجھے رفیق .. تو کون ہے ؟ جو اتنا نیا دیکھتا ہے دوست.. چاہوں اسے ،کہ جس کو مرا چاہتا ہے یار .. دیکھوں اسے کہ جس کو مرا دیکھتا ہے دوست ..! سات آسمان گریہ کناں ہیں ،زمین شق . یہ کون ہو رہا ہے جدا ! دیکھتا ہے دوست ؟؟ میں تیرے دیکھنے پہ کروں شک ! مجال کیا ! تو جو بھی دیکھتا ہے بجا دیکھتا ہے دوست ..! دل کیوں نہ مطمئن ہو کہ ہے جو ترا مرید .. ہر حال میں یہ تیری رضا دیکھتا ہے دوست ..! مرتد ہی جان ! جو کہ پھرے روئے

ہم گھوم چکے بستی بَن میں

ہم گھوم چکے بستی بَن میں اِک آس کی پھانس لیے من میں کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو کوئی دِیپک ہو، کوئی تارا ہو جب جیون رات اندھیری ہو اِک بار کہو تم میری ہو جب ساون بادل چھائے ہوں جب پھاگن پھول کھلائے ہوں جب چندا رُوپ لٹاتا ہو جو سورج دُھوپ نہاتا ہو یا شام نے بستی گھیری ہو اک بار کہو تم میری ہو ہاں دل کا دامن پھیلا ہے کیوں گوری کا دل میلاہے ہم کب تک پِیت کے دھوکے میں تم کب تک دُور جھروکے میں کب دید سے دل کو سیری ہو اِک بار کہو تم میری ہو کیا جھگڑا سُود خسارے کا یہ کاج نہیں بخارے کا سَب سونا رُوپا لے جائے سب دنیا دنیا لے جائے تم ایک مجھے بہتیری ہو اِک بار کہو تم میری ہو ابنِ انشا

پاکستانی کی تاریخ کا گولڈن واقعہ

پاکستانی کی تاریخ کا گولڈن واقعہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے اور وہی ہورہا ہے ملک خداداد پاکستان میں حومت جو کہےی ہے جیسے تیسے ثبوت پیش کرتی ہے وہ عمران خان کو منظور نہیں اور جو عمران کہتا ہے مضوط دلایل و ثبوت پیش کرتا ہے وہ بهی کسی صورت عوام اور حکمرانوں خو منظور نہیں کہ عوام خود خوش ہے کرپٹ سیاستدانون کو مسلط کرکہ...عوام جو کہتی ہے وہ پولیس کو منظور نهی اور جو پولیس کہتی ہے وہ عوام نہیں مانتے...فوج سب کو مہرے بنا کر شطرنج کهیل رہی ہے اور خاموش ہے... ایمانداری سے بات کی جاے تو ہم نے عوام نے حکمرانوں نے تاریخ سے کچه بهی نہیں سیکها... سیاست میں میانہ روی اور سنجیدگی ہی پہلی فتح ہوتی ہے یہی حسن کہلاتا ہے سیاست کا جو خیر سے نہ مجه میں هے نہ آپ میں نہ ہی سیاست می میانہ روی ہم کو چهو کر بهی نهی گزری.. مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے کچه ہی اسباب تهے ریفرینڈم میں شیخ مجیوب الرحمن بهاری مینڈیٹ سے جیت گیا تها بهٹو کو عام شیکست ہوگی تهی لیکن وہ اپنی ہٹ دهرمی پہ قائم رہا..دونوں طرف ایک ضد سوار تهی.. شیخ مجیب الرحمان کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی تهی تو

بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تو بھی

بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تو بھی بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تو بھی ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت رہا ہے درپئے آزار اب کہاں تو بھی ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تو بھی اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل! رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تو بھی مری غزل میں کوئ اور کیسے در آئے ستم تو یہ ہے کہ اے یار! اب کہاں تو بھی جو تجھ سے پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب فراز ایسا گنہگار اب کہاں تو بھی​

Computer Fundamentals (fifth Edition): Pradeep K. Sinha,Priti Sinha

Image
Download this book

Physics solution vol 1 Halliday Resnick Krane (5th Ed.pdf)

Image
Download this Book

calculus and analytic geometry by sm yusuf

Image
Download this Book