Posts

Showing posts from November 9, 2016

اسیں لکھہ نمازاں نیتیاں، اسیں سجدے کیتے لکھ

اسیں لکھہ نمازاں نیتیاں، اسیں سجدے کیتے لکھ کدی ٹبیاں ریتاں رولیاں، کدی گلیاں دے وِچ ککھ اسیں پکّھو وِچھڑے ڈار توں، اسیں اپنڑیں آپ توں وکھ اسیں وِیکھیا دل مخلوق دا، دل بُوہے بُوہے رکھ اسیں راتاں کٹیاں جاگ کے، لگ بَاریاں نال کَھلو ساڈی اکھیں رَستیاں ساڑیاں، دل دِتا درد پرو ساڈے ساہ وچ صبر دی چاشنی، ساڈی رگاں وچ خَشبو ساتھوں ہار کے ساڈے حوصلے، پے کندھاں نَپ نَپ رو اسیں گبھرو سکدے شہر دے، ساڈے خاباں نال وداں اسیں خالی کُھوکھے ذات دے، سانو چُنجاں مارن کاں اسیں موسم کچے عشق دے، ساڈی دُھپ بنے نہ چَھاں ساڈے ماتھے بھرے لکیر دے، ساڈی قسمت مُول نہ تھاں اسیں مُجرم عشق دے جرم دے، اسیں سُفنے لیے اُڈیک ساتھے لگن روز عدالتاں ،سانو پے جاے روز تریک نِت آساں لا لا بیٹھئے، نِت دل تے ماریے لیک کدی چِھکے چَن آسمان تے، کدی مِٹی لوے دَھرِیک اسیں جمدے نال دے گھابرے، اسیں قسمت نال خفا کدی پتھراں دے وچ کھیڈ دے، کدی ٹردے ڈھور اڈا اسیں بھولے وانگ کبوتراں، اسیں پاگل وانگ ہوا اسیں اپنے آپ عبادتی .....اسیں اپنے آپ خدا (فرحت عباٗس)

Halliday resnick and krane 5th edition vol 1

Image
Download this Book

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاۂ آئینہ ساز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں....

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں ملتا ہے کہاں خوشہٰ گندم کہ جلاؤں شاہین کا ہے گنبدشاہی پہ بسیرا کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں ہر داڑھی میں تنکا ہے،ہر ایک آنکھ میں شہتیر مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر توحید کی تلوارسے خالی ہیں نیامیں اب ذوق یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں شاہیں کا جہاں آج گرگس کا جہاں ہے ملتی ہوئی ملاّ سے مجاہد کی اذاں ہے مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے،لیکن دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈرہو وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے اس بندہ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے وہ سجدہ

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں..

جب چاند کى پھيکی جھالر ميں.. اک روشن تاره دکهتا ہو.. جب ريت كے ذرے زرے ميں .. کوئی نام ادهورا لکھتا ہو.. جب کالى چادر اھوڑ ے وہ.. کسی درگاہ پہ کبھی رکتا ہو.. جب خالی خالی نظروں سے.. رنگوں پہ انگلی رکھتا ہو____!! تم ايسے شخص کی سنگت ميں.. سورج کی اجلی رنگت ميں.. اک منت مانگ کے دريا ميں.. دو بوند بہانا چاندی کے.. اک پھول کھلے گا پانی ميں.. کوئ راز کھلے گا سينے میں____!! جب مڑ کے دنيا ديکھو گے.. وہ شخص کہیں کھو جاے گا.. کہیں چاند کی پھيکی جھالر ميں.. .کہیں ريت کے ذرے ذرے ميں....!!!!

ابھی ہیں خواب آنکھوں میں ،ابھی تعبیر زندہ ہے

ابھی ہیں خواب آنکھوں میں ،ابھی تعبیر زندہ ہے ابھی دل کے صنم خانے میں اِک تصویر زندہ ہے تڑپتا ہے دلِ وحشی ابھی غم کے شکنجے میں ابھی تو پنجہِ شہباز میں ،نخچیر زندہ ہے ترے الفاظ سوچوں بھی تو یاد آتے نہیں مجھ کو ترے لہجے سے جو دل پر لگا ،وہ تیر زندہ ہے سُخن آثار لمحوں کو جو پہچانا ،تو یہ جانا انہیں لمحوں میں لکھے لفظ کی تاثیر زندہ ہے جو دھڑکن بن کے دھڑکی ہے،نئی صدیوں کے سینے میں کُتب خانوں کے شیلفوں میں ،وہی تحریر زندہ ہے نہ کُچلو لفظ کی حُرمت کہ کل دنیا دُھائی دے مُصنف مر گیا ،اس کی مگر تقصیر زندہ ہے ابھی آہ و فغاں کی ریت ہے، اشعار میں جاری ابھی شعروسُخن کی وادیوں میں ،مؔیر زندہ ہے تماشا گاہِ دنیا میں کیا ،رقصِ جنوں برسوں مگر اب تک ہمارے پاؤں میں زنجیر زندہ ہے یہ دیمک وقت کی ساری کتابیں چاٹ لیتی ہے مگر اِک نسخہِ قُرآن کی توقیر زندہ ہے کوئی وُقعت ستارے کی نہیں ماہتاب کے آگے مقابل ہو اگر تقدیر ،کب تدبیر زندہ ہے سُنا جو شور و غوغا نصف شب ،تو ہنس کے فرمایا دمِ عشاق سے ہی نالہِ شب گیر زندہ ہے بجائے بانسری کے فون ہے رانجھے کے ہاتھوں میں ورق پر فیس بُک کے ،دورِ نَو کی ہیر زندہ ہے امانت ہے نئی

تو کبھی دیکھ تو روتے ہوئے آ کر مجھ کو

تو کبھی دیکھ تو روتے ہوئے آ کر مجھ کو روکنا پڑتا ہے آنکھوں سے سمندر مجھ کو اس میں آوارہ مزاجی کا کوئی دخل نہیں دشت و صحرا میں پھراتا ہے مقدر مجھ کو ایک ٹوٹی ہوئی کشتی کا مسافر ہوں میں ہاں نگل جائے گا ایک روز سمندر مجھ کو اس سے بڑھ کر مری توہینِ انا کیا ہوگی اب گدا گر بھی سمجھتے ہیں گدا گر مجھ کو زخم چہرے پہ، لہو آنکھوں میں، سینہ چھلنی زندگی اب تو اڑھا دے کوئی چادر مجھ کو میری آنکھوں کو وہ بینائی عطا کر مولیٰ ایک آنسو بھی نظر آئے سمندر مجھ کو کوئی اس بات کو مانے کہ نہ مانے لیکن چاند لگتا ہے ترے ماتھے کا جھومر مجھ کو دکھ تو یہ ہے مرا دشمن ہی نہیں ہے کوئی یہ مرے بھائی ہیں کہتے ہیں جو بابر مجھ کو مجھ سے آنگن کا اندھیرا بھی نہیں مٹ پایا اور دنیا ہے کہ کہتی ہے منور مجھ کو

وہ بھی خائف نہیں تختہءِ دار سے

وہ بھی خائف نہیں تختہءِ دار سے میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے ظلم کی بات کو جہل کی رات سے ًمیں نہیں مانتا، میں نہیں‌جانتا تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا دیپ جس کا محلات میں ہی جلے چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

کہیں ملے تو اس کو کہنا

کہیں ملے تو اس کو کہنا کہیں ملے تو اس کو کہنا فصیلِ نفرت گرا رھا ھوں گئے دنوں کو بُھلا رھا ھوں وہ اپنے وعدے سے پھر گیا ھے میں اپنا وعدہ نبھا رھا ھوں کہیں ملے تو اس کو کہنا تنہا ساون بیتا چکا ھوں میں سارے ارماں جلا چکا ھوں جو شعلے بھڑکتے تھے خواہشوں کے وہ آنسوؤں سے بجھا چکا ھوں کہیں ملے تو اس کو کہنا نہ دل میں کوئی ملال رکھے ہمیشہ اپنا خیال رکھے تمام غم اپنے مجھ کو دے کے وہ میری خوشیاں سنبھال رکھے

اسلام عليكم!!! ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔

Image
اسلام عليكم!!! ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﻩ ﻫﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺑﮭﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ’ ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ ‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﺗﮯ، ﺟﻬﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﻪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﻩ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﻪ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﺎ ،ﺗﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ. ﮐﺘﻨﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ ﮐﮭﭗ ﮔﺌے. ﺍﺱ ﺩﻓﻌﻪ ﺷﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻟﮓ ﺭﻫﺎ ﺗﮭﺎ، ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼ ،ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻭﻩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺑﮭﯽ۔ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮩﺎﮞ ﮔﯿﺎ، ﺗﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﻫﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ، ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ. ﯾﻪ ﺳﻨﺘﮯ ﻫﯽﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﻪ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻫﻮﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤ

فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم

فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم ہمارے شہر میں اُترا کمال کا موسم وہ اِک دُعا! جو مِری نامُراد لوٹ آئی زباں سے رُوٹھ گیا پھر سوال کا موسم بہت دِنوں سے مِرے ذہن کے دریچوں میں ! ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم جو بے یقیں ہوں بہاریں، اُجڑ بھی سکتی ہیں تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم محبتیں بھی تِری دُھوپ چھاؤں جیسی ہیں کبھی یہ ہجر، کبھی یہ وصال کا موسم کوئی مِلا ہی نہیں جس کو سونپتے، مُحسن ہم اپنے خواب کی خوشبو، خیال کا موسم ......!

جاپانی سب سے زیادہ عزت پاکستانیوں کی کرتے ہیں, بزنس کمیونٹی میں بھی وہاں پاکستانی تاجروں کو

جاپانی سب سے زیادہ عزت پاکستانیوں کی کرتے ہیں, بزنس کمیونٹی میں بھی وہاں پاکستانی تاجروں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے,پاکستانی تاجر وہاں استعمال شدہ گاڑیوں کے سب بڑے خریدار ہیں اور ان کی بہت بہترین ساکھ ہے اس کاروبار میں, ہر نیلامی میں پاکستانی شامل ہوتے ہیں اور پاکستانیوں کو بغیر زر ضمانت بولی میں حصہ لینے کی اجازت ہے کیونکہ پاکستانی زبان کے پکے مانے جاتے ہیں, اب کچھ اس بارے اوریا مقبول جان کی زبانی, جب جاپان میں سونامی آیا۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کو واپس بلا لیا۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی دو جہاز بھیجے اور اپنے شہریوں کو لے گیا‘ لیکن آفت کی اس گھڑی میں پاکستانی وہ واحد قوم تھی جو تھویاما کے برف پوش علاقوں اور ٹوکیو کی گنجان آباد بستیوں سے دیوانہ وار سامانِ خورو نوش لے کر سونامی کے علاقوں میں جا پہنچے۔ جاپانی گرم گرم کھانا پسند کرتے ہیں۔ وہ حیران رہ گئے‘ یہ کیسی قوم ہے‘ اپنے ساتھ کھانا پکانے کا سامان لے کر آئی ہے اور ہمیں گرم گرم کھانا پکا کر کھلا رہی ہے! وہ جگہیں جہاں ان کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ ہوا تھا اور جاپانی بھی تابکاری کے ڈر سے نہیں جاتے

محبت نام ہے میرا

محبت نام ہے میرا اگر چاہو گئے تم مجھ کو تمھاری سانس سے پہلے تمہاری جان بن جاؤں اگر دیکھو گئے تم مجھ کو تمہاری آنکھ سے پہلے تمھارے خواب بن جاؤں اگر سوچو گئے تم مجھ کو تمھارے پاؤں سے پہلے تمہاری راہ بن جاؤں محبت نام ہے میرا . مجھے تم سوچ کے دیکھو . . . !

ایک سمجھدار خاوند کی اپنی بیوی کو نصیحت

Image
ایک سمجھدار خاوند کی اپنی بیوی کو نصیحت 🌹ایک خاوند نے اپنی بیوی کو پہلی ملاقات میں یہ نصیحت کی۔ کہ چار باتوں کا خیال رکھنا: 🌹1......پہلی بات یہ کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو بیوی کے طور پر پسند کیا۔ اگر آپ مجھے اچھی نہ لگتیں تو میں نکاح کے ذریعے آپ کو گھر ہی نہ لاتا۔ آپ کو بیوی بنا کر گھر لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے تا ہم میں انسان ہوں فرشتہ نہیں ہوں اگر کسی وقت میں غلطی کر بیٹھوں تو تم اس سے چشم پوشی کر لینا۔ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دینا۔ 🌹2.....اور دوسری بات یہ کہ مجھے ڈھول کی طرح نہ بجانا۔ بیوی نے کہا، کیا مطلب؟ اس نے کہا جب بالفرض اگر میں غصے میں ہوں تو میرے سامنے اس وقت جواب نہ دینا۔ مرد غصے میں جب کچھ کہہ رہا ہو اور آگے سے عورت کی بھی زبان چل رہی ہو تو یہ چیز بہت خطرناک ہوتی ہے۔ اگر مرد غصے میں ہے۔ تو عورت اوائڈ کر جائے اور بلفرض عورت غصے میں ہے تو مرد اوائڈ کر جائے۔ دونوں طرف سے ایک وقت میں غصہ آ جانا یوں ہے کہ رسی کو دونوں طرف سے کھینچنے والی بات ہے۔ ایک طرف سے رسی کو کھینچیں اور دوسری طرف سے ڈھیلا چھوڑ دیں تو وہ نہیں ٹوٹتی اگر

جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے

جب سے بیگم نے مجھے مرغا بنا رکھا ہے میں نے نظروں کی طرح سر بھی جھکا رکھا ہے برتنو!آج میرے سر پہ برستے کیوں ہو میں نے دھو دھا کے تمہیں کتنا سجا رکھا ہے پہلے بیلن نے بنایا میرے سر پر گومڑ اور چمٹے نے میرا گال سجا رکھا ہے سارے کپڑے تو جلا ڈالے میری بیگم نے زیب تن کرنے کو بنیان پھٹا رکھا ہے اے کنوارو! یونہی آباد رہو شاد رہو ہم کو بیگم نے تو سولی پر چڑھا رکھا ہے وہی دنیا میں مقدر کا سکندر ٹہرا جس نے خود کو یہاں شادی سے بچا رکھا ہے حق نسواں کی جو لیڈر ہیں بتائیں تو زرا کس نے سرتاج کو جوتی پر اٹھا رکھا ہے روز لیتی ہے تلاشی وہ پولیس کی مانند پوچھتی ہے کہاں پیسوں کو چھپا رکھا ہے پی جا اس مد کی تلخی کو بھی ہنس کے اے شوہر مار کھانے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے ن م

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی! تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی! مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی! شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی! عشق کی تیغِ جگر دار اُڑا لی کس نے؟ عِلم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی! سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات ہو نہ روشن، تو سخن مرگِ دوام اے ساقی! تو میری رات کو مہتاب سے نہ محروم رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی! علامہ اقبالؔ