Posts

Showing posts from November 8, 2016

جن، بیوی اور چِلا

جن، بیوی اور چِلا ****************** ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﺑﮩﺖ ﺧﺮﺍﺏ ﺗﮭﮯ..ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﺖ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ.. ﮐﺎﻓﯽ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﮦ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ.. ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺟِﻦ ﻗﺎﺑﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ .. ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻣﻼ ﺟﻮ ﻋﻤﻠﯿﺎﺕ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ.. ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺠﺮﺏ ﻋﻤﻞ ﺑﺘﺎﯾﺎ.. ﻋﻤﻞ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﺎ.. ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﻋﻤﻞ ﭼﻠﺘﺎ ﺭﮨﺎ.. ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺭﺍﺅﻧﯽ ﺷﮑﻠﯿﮟ ﻧﻈﺮﺁﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ.. ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﻋﻤﻞ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﺎ.. ﻣﯿﮟ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﻓﻨﺎﮎ ﻧﺴﻮﺍﻧﯽ ﺁﻭﺍﺯﺁﺋﯽ: ''ﻣُﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﺑﺎ، ﻣﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﮉﺭ ﻓﺮﯾﺞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﻻﺋﯿﮟ ".. ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮐﻨﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮓ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﻤﻞ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ.. ﺑﺎﺑﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﻻﺕ ﮨﻮﮞ، ﺣﺼﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﮌﻧﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ.. ! ﺁﻭﺍﺯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺁﺋﯽ.. ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﮔﯿﺎ.. ﺩﺱ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭼﮍﯾﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺩﮬﺎﺭﮮ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯽ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ.. ﻣﯿﮟ ﺑﻼﺧﻮﻑ ﻭِﺭﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺣﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺗﮭﺎ.. ﻭﮦ ﭼﮍﯾﻞ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﯽ.. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭِﺭﺩ ﺗﯿﺰ ﮐﺮﺩﯾﺎ.. ﺍُﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﻣﯿﮟ

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

تم میرے بچے کو کیوں ڈانٹتے ہو..؟؟؟

تم میرے بچے کو کیوں ڈانٹتے ہو..؟؟؟ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تها،کالج کے بعد جب یونیورسٹی میں داخل ہوا تو باپ کی معمولی تنخواہ اس کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر تهی،ماں کو وراثت میں 6مرلے کا ایک پلاٹ ملا تھا، اس کے کاغذات اپنے بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے کہا میرا بچہ پڑھ لکھ کر افسر بنے گا تو ایسے کئی پلاٹ خریدے گا،چل میرا بچہ یہ پلاٹ بیچ کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر،اس طرح اس کی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا،یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اسے اچھی سی جاب بھی ملی،یوں خاندان کے برے دن ختم ہوگئے.. چند عرصے بعد ماں باپ کے لئے یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب "پسند کی شادی" کے بعد اس نے اپنے ماں باپ کو باپ کی کل پنشن یعنی 8000روپے کے رحم و کرم پہ چهوڑ کر اپنا الگ گھر بسالیا،اس کے اپنے گھر میں گاڑی سے لے کر ائیر کنڈیشن تک کی ہر سہولت میسر تھی جب کہ دوسری جانب اس کی ماں بیماری کی وجہ سے بستر سے لگ کر رہ گئی تھی،باپ روزانہ آدھا گهنٹہ پیدل چل کر حکیم صاحب سے اس کے لئے تازہ دوا لے کر آتا،جب کہ باقی وقت لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دیسی پنکھے سے اپنی بیوی کے پسینے پوچھنے کی ناکام کوششوں میں مصروف رہتا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟ یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

دن گزر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں

دن گزر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں زخم بھر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں کوچ کر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں ہم مکر جاینگے ، سرکار کوئی بات نہیں رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے ہنس کے مر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں نکل آئے ہیں عدم سے تو ججھکنا کیسا در بدر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں

ایک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے

ایک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے آغاز عاشقی کا مزا آپ جانئے! انجام عاشقی کا مزا ہم سے پوچھئے ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپکی طرح ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھئے وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھئے جلتے دئیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھئے ہم توبہ کر کے مر گئے قبل اجل خمار توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھئے

ﺳُﻮﻟﯽ ﺍُﺗﮯ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ

Image
ﺳُﻮﻟﯽ ﺍُﺗﮯ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﺷﺎﻡ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻣﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﻣُﻨﮧ ﺗﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺪﺍ ﯾﺎﺩ ﺩِﻻﮞ ﻭﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﺷﻤّﻊ ﺩﺍ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﻧﮓ ﭘﺘﻨﮕﺎﮞ ﺳﮍﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧﺎﻝ ﺗﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮍﺩﺍ ﻧﻔﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻝ ﻟﮍﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺭُﻭ ﺑﻦ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﮮ ﻋﺸﻖ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺗَﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﻧﺎﮞ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺑﻠﯿﺲ ﺩﺍ ﮐﻢ ﺍﯾﮟ ﺳِﺮ ﭘﯿﺮﺍﮞ ﺗﮯ ﺩﮬﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ ﺟِﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﻧﻮﮞ ﯾﺎﺭﻭ ﯾﺎﺭ ﺩﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﮨﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ-

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں اور کیا جرم ہے ۔۔۔۔۔ پتا ہی نہیں سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں زندگی ۔۔۔۔۔۔ موت تیری منزل ہے دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں جس کے کارن فساد ہوتے ہیں اُس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں اپنی رچناؤں میں وہ زندہ ہے نُور سنسار سے گیا ہی نہیں

نِگاہِ لُطف مت اُٹھ ، خُوگرِ آلام رہنے دے

نِگاہِ لُطف مت اُٹھ ، خُوگرِ آلام رہنے دے ہمیں ناکام رہنا ہے، ہمیں ناکام رہنے دے کسی معصُوم پر بیداد کا اِلزام کیا معنی یہ وحشت خیز باتیں عشقِ بدانجام رہنے دے ابھی رہنے دے دل میں شوقِ شورِیدہ کے ہنگامے ابھی سر میں محبّت کا جنُونِ خام رہنے دے ابھی رہنے دے کچُھ دن لُطفِ نغمہ، مستئ صہبا ابھی یہ ساز رہنے دے، ابھی یہ جام رہنے دے کہاں تک حُسن بھی آخر کرے پاسِ وضع داری اگر یہ عشق خود ہی فرقِ خاص و عام رہنے بہ ایں رِندی، مجاز اک شاعرِ مزدور و دہقاں ہے اگر شہروں میں وہ بدنام ہے، بدنام رہنے دے

چاک پیراہنیِ گُل کو صبا جانتی ہے

چاک پیراہنیِ گُل کو صبا جانتی ہے مستیِ شوق کہاں بندِ قبا جانتی ہے ہم تو بدنامِ محبت تھے سو رُسوا ٹھہرے ناصحوں کو بھی مگر خلقِ خدا جانتی ہے کون طاقوں پہ رہا کون سرِ راہگزار شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے ہوس انعام سمجھتی ہے کرم کو تیرے اور محبت ہے کہ احساں کو سزا جانتی ہے

ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں

ہر پری وَش کو خدا تسلیم کر لیتا ہوں میں کتنا سودائی ہوں، کیا تسلیم کر لیتا ہوں میں مے چُھٹی، پر گاہے گاہے اب بھی بہرِ احترام دعوتِ آب و ہوا تسلیم کر لیتا ہوں میں بے وفا میں نے، محبّت سے کہا تھا آپ کو لیجیئے اب با وفا تسلیم کر لیتا ہوں میں جو اندھیرا تیری زلفوں کی طرح شاداب ہو اُس اندھیرے کو ضیا تسلیم کر لیتا ہوں میں جُرم تو کوئی نہیں سرزد ہوا مجھ سے حضور با وجود اِس کے سزا تسلیم کر لیتا ہوں میں جب بغیر اس کے نہ ہوتی ہو خلاصی اے عدم رہزنوں کو رہنما تسلیم کر لیتا ہوں میں

محے کو بےوفا سمجھ لیجئے

محے کو بےوفا سمجھ لیجئے جاودانی ادا سمجھ لیجئے میری خاموشئ مسلسل کو اِک مسلسل گِلہ سمجھ لیجئے آپ سے میں نے جو کبھی نہ کہا اُس کو میرا کہا سمجھ لیجئے جس گلی میں بھی آپ رہتے ہوں واں مجھے جا بہ جا سمجھ لیجئے آپ آ جایئے قریب مرے مجھ کو مجھ سے جُدا سمجھ لیجئے جو نہ پہنچائے آپ تک مجھ کو آپ اُسے واسطہ سمجھ لیجئے نہیں جب کوئی مدعا میرا کوئی تو مدعا سمجھ لیجئے جو کبھی حالِ حال میں نہ چلے اُس کو بادِ صبا سمجھ لیجئے جو کہیں بھی نہ ہو، کبھی بھی نہ ہو آپ اُس کو خدا سمجھ لیجئے
بادشاہ کا قیمتی موتی گم ھو گیا ، اس نے اعلان کیا کہ جو اسے ڈھونڈ لائے گا اسے اس اس انعام سے نوازا جائے گا ! سارے درباری سردار اور معززین تلاش میں لگ پڑے ،، دو دن کی جان مار تلاش کے بعد ایک درباری کو وہ موتی مل گیا، جبکہ باقی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ناکام رھے ! بادشاہ نے ڈھوندنے والے کو حسب وعدہ تمام انعامات سے نوازا اور اس کی محنت کی تعریف کی ! اس کے بعد بادشاہ دوسرے درباریوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کی محنت پر ان کے لیئے خیر کے کلمات کہے اور پھر ان کو بھی انعامات دیئے ! یہ منظر دیکھ کر اس درباری کو کہ جسے وہ موتی ملا تھا، کچھ اچھا نہیں لگا اور اس کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نظر آنے لگے ! بادشاہ جو یہ سب محسوس کر رھا تھا وہ اس درباری کی طرف متوجہ ھوا اور اس سے کہا کہ "میں نے موتی ڈھونڈنے والے سے جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق تمہیں نواز دیا اور اس میں کمی کوئی نہیں کی ! پھر میں سعی والوں کی طرف متوجہ ھوا اور ان کو نوازا اور تیرے حق میں سے کم کر کے نہیں دیا بلکہ اپنے خزانے سے دیا،، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کوشش کر کے بھی جن کو نہ ملا ان کو محروم کر دونگا ! موتی ایک تھا اور ایک کو

بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے

بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے واہ کیا کہنے بہت خوب دوبارہ ہو جائے رات بھر ہوتی رہے ٹوٹ کے دریا زاری یوں بغل گیر کنارے سے کنارا ہو جائے روز کرتا ہوں میں دنیا کے محلے میں خرام جانے کب کون سی چلمن سے اشارہ ہو جائے چاک سے ہو کے بھی صد چاک لیے پھرتا ہے جسم کی آخری خواہش ہے کہ گارا ہو جائے بد دعا مانگنے والے کی د عا کے صدقے ہر برا آدمی اللہ کو پیارا ہو جائے رزق تو خیر مری ثانوی ترجیح رہا عشق بھی اتنا کمایا کہ گزارا ہو جائے