Posts

Showing posts from March 29, 2014

mushkil hai ab shahar main nikle koi

mushkil hai ab shahar main nikle koi ghar se dastar pe bat a gai hai hoti hui  sar se barsa bhi to kis dasht k be-faiz badan  par ik umr mere khet the jis abr ko tarse is bar  jo indhan k liye kat k gira hai chiriyon ko bara pyar tha  us burhe shajar se mehnat meri andhi se to mansub nahin thi rahna tha koi rabt shajar ka bhi samar se  khud apne se milne ka to yara na tha  mujh main main bhir main gum ho gai tanhai k dar se benam musafat hi muqaddar hai  to kya gam manzil ka ta'yyun kabhi hota hai  safar se pattharaya hai dil yun k koi ism parha jaye  ye shahar nikalta nahin jadu k asar se  nikle hain to raste main kahin sham bhi hogi suraj bhi magar ayega is rah-guzar se

mushkil hai ab shahar main nikle koi

mushkil hai ab shahar main nikle koi ghar se dastar pe bat a gai hai hoti hui  sar se barsa bhi to kis dasht k be-faiz badan  par ik umr mere khet the jis abr ko tarse is bar  jo indhan k liye kat k gira hai chiriyon ko bara pyar tha  us burhe shajar se mehnat meri andhi se to mansub nahin thi rahna tha koi rabt shajar ka bhi samar se  khud apne se milne ka to yara na tha  mujh main main bhir main gum ho gai tanhai k dar se benam musafat hi muqaddar hai  to kya gam manzil ka ta'yyun kabhi hota hai  safar se pattharaya hai dil yun k koi ism parha jaye  ye shahar nikalta nahin jadu k asar se  nikle hain to raste main kahin sham bhi hogi suraj bhi magar ayega is rah-guzar se

Never LOVE soldier

Image

ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﻣﺮﮮ ﻣﺎﮦ ﻭ ﺳﺎﻝ ﺩﮮ ﺍُﺱ ﮐﻮ

 ﻣِﺮﮮ ﺧﺪﺍ ﻣِﺮﮮ ﺩُﮐﮫ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﮮ ﺍُﺱ ﮐﻮ  ﻭﮦ ﭼُﭗ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﮯ ﮐﺌﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﺗﻮ  ﮐﻮﺍﮌ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﮮ ﺍﺫﻥِ ﺳﻮﺍﻝ ﺩﮮ ﺍُﺱ ﮐﻮ  ﻋﺬﺍﺏ ﺑﺪ ﻧﻈﺮﯼ ﮐﺎ ﺟِﺴﮯ ﺷﻌﻮﺭ ﻧﮧ ﮨﻮ  ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ, ﻣِﺮﮮ ﺧّﺪ ﻭ ﺧﺎﻝ ﺩﮮ ﺍُﺱ ﮐﻮ  ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺷﺐ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﮐﮧ ﮐِﺲ ﮐﯽ ﺩﺳﺘﮏ ﮨﮯ  ﻭﺻﺎﻝ ﺭُﺕ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﭨﺎﻝ ﺩﮮ ﺍُﺱ ﮐﻮ  ﻭﮦ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺣﺮﻑِ ﺩُﻋﺎ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺑُﺠﮫ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﻣﻮﻻ ﺍُﺟﺎلا ﺩﮮ ﺍُﺱ ﮐو

محبت یوں بھی ہوتی ہے

 ہمیشہ چپ رہا جائے  کبھی کچھ نہ کہا جائے  حفاظت ایسے کی جائے  کہ جیسے راز ہو کوئی  کسی پرسوز سینے میں  کی جیسے ساز ہو کوئی  چھپایا یوں اسے جائے  جو دل میں سیپ کے موتی  کسی کی بیوفائی جو  دلوں میں خار ہے بوتی  کوئی کہ دے اسے جا کر  یہ بھی اندازِ الفت ہے  طریقِ مہر چاہت ہے  یہ بھی رمزِ محبت ہے  کوئی کہدے اسے جا کر  محبت یوں بھی ہوتی ہے

محبت یوں بھی ہوتی ہے

 ہمیشہ چپ رہا جائے  کبھی کچھ نہ کہا جائے  حفاظت ایسے کی جائے  کہ جیسے راز ہو کوئی  کسی پرسوز سینے میں  کی جیسے ساز ہو کوئی  چھپایا یوں اسے جائے  جو دل میں سیپ کے موتی  کسی کی بیوفائی جو  دلوں میں خار ہے بوتی  کوئی کہ دے اسے جا کر  یہ بھی اندازِ الفت ہے  طریقِ مہر چاہت ہے  یہ بھی رمزِ محبت ہے  کوئی کہدے اسے جا کر  محبت یوں بھی ہوتی ہے

بہت سے عام لوگوں میں

بہت سے عام لوگوں میں بہت ہی عام سے ہیں ہم کہ بالکل شام سے ہیں ہم کہ جیسے شام ہوتی ہے بہت چپ چاپ اور خاموش بہت ہی پر سکوں لیکن کسی پہ مہرباں جیسے مگر بے چین ہوتی ہے کوئی ہو رازداں جیسے خفا صبح کی کرنوں سے کہ جیسے شام ہوتی ہے یوں بالکل شام سے ہیں ہم بہت ہی عام سے ہیں ہم مگر ان عام لوگوں میں دل حساس رکھتے ہیں بہت کچھ خاص رکھتے ہیں اگرچہ عام سے ہیں ہم

old memories

Image

ﺟﺐ ﺷﮩﺮِ ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮨﻮ

Image
ﺟﺐ ﺷﮩﺮِ ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮨﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﭼﻠﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﺗﻨﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺳﻨﻮ ﺳﻨﺎﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻮﺣﮧ ﭘﯿﻠﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮔﺮﯼ ﭨﮩﻨﯽ ﺳﻮﮐﮭﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﮐﭽﮫ ﺧﺎﮎ ﺍﮌﺍﺅ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﮔﺮﺩ ﺳﺠﺎﺅ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﺮ ﺫﺭﺍ ﺳﺮ ﭘﮧ ﺑﭩﮭﺎﺅ ﺫﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﻮﻟﻮ ﺩﺭﺩ ﮐﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﻭﮌﮬﻮ ﭼﺎﺩﺭ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺮﺥ ﺳﯽ ﮐﻮﻧﭙﻞ ﭘﮭﻮﭨﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﺮﯾﺪﻭ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﻨﮕﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﻣﮩﮑﮯ ﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﺍﺟﮍﯼ ﺳﻮﻧﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﯾﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻘﺶِ ﻗﺪﻡ ﺟﺐ ﺷﮩﺮِ ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮨﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﭼﻠﻮ ﺗﻨﮩﺎ ﺗﻨﮩﺎ

|HMM

Image

تم اک گورکھ دھندہ ہو تم اک گورکھ دھندہ ہو

Image
کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو تم اک گورکھ دھندہ ہو تم اک گورکھ دھندہ ہو ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا تم اک گورکھ دھندہ ہو کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے م یں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے نہیں آیا خیالوں میں اگر تو تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے تم اک گورکھ دھندہ ہو حیران ہوں میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو ہاتھ آؤ تو بت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو اصل میں جو مل گیا ، لا الہ کیونکر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر

Pagal

Image

!! یہ بھی ایک محبت ہے ..

ہم تم یکجا . . ہم تم مجرم . . ہم تم ایک سے رہتے ہیں . . یاد بھی کرتے رہتے ہیں . . خواب بھی بنتے رہتے ہیں . . اور اک دوجے کی رسوائی سے ہر دم ڈرتے رہتے ہیں . . سہمے سہمے رہتے ہیں . . اپنی انا کے، اپنی بقا کے، اپنی حیا کے، اپنی وفا کے، عادی مجرم…. !! یہ بھی ایک محبت ہے ..

Aaftaab

Image

جو گھر سے دور ہوتے ہیں

جو گھر سے دور ہوتے ہیں  بہت مجبور ہوتے ہیں کبھی باغوں میں سوتے ہیں  کبھی چھپ چھپ کے روتے ہیں گھروں کو یاد کرتے ہیں  تو پھر فریاد کرتے ہیں  مگر جو بے سہارا ہوں گھروں سے بے کنارہ ہوں انہیں گھر کون دیتا ہے  یہ خطرہ کون لیتا ہے  بڑی مشکل سے اک کمرہ  جہاں کوئی نہ ہو رہتا نگر سے پار ملتا ہے بہت بے کار ملتا ہے تو پھر دو چار ہم جیسے  ملا لیتے ہیں سب پیسے اور آپس میں یہ کہتے ہیں کہ مل جل کر ہی رہتے ہیں کوئی کھانا بنائے گا  کوئی جھاڑو لگائے گا  کوئی دھوئے گا سب کپڑے تو رہ لیں گے بڑے سکھ سے مگر گرمی بھری راتیں  تپش آلود سوغاتیں اور اوپر سے  عجب کمرہ گھٹن اور حبس کا پہرہ  تھکن سے چور ہوتے ہیں  سکوں سے دور ہوتے ہیں بہت جی چاہتا ہے تب ک ہ ماں کو بھیج دے یا ربّ  جو اپنی گود میں لے کر ہمیں ٹھنڈی ہوا دے کر سلا دے نیند کچھ ایسی کہ ٹوٹے پھر نہ  اک پل بھی مگر کچھ بھی نہیں ہوتا  تو کر لیتے ہیں سمجھوتا  کوئی دل میں بلکتا ہے  کوئی پہروں سلگتا ہے جب اپنا کام کر کے ہم پلٹتے ہیں  تو آنکھیں نم مکاں ویران ملتا ہے بہت بے جان ملتا ہے خوشی معدوم رہتی ہے فضا مغموم رہتی ہے بڑے رنجور کیوں نہ ہوں  بڑے مجبور کیوں نہ ہو

- اے مظلومو، اے محکومو

- اے مظلومو، اے محکومو ، اے نادارو، اے ناچارو اِک راز سنو، آواز سنو، ہوتا ہے کہاں آغاز سنو خاموش لبوں کی جنبش سے دنیا کے خدا سب ڈرتے ہیں سجدوں میں پڑے سر اُٹھ جائیں مسند پہ جمے رب ڈرتے ہیں پابندِ سلاسل روحیں جب بیزارِ جفا ہو جائیں گی مقتل سے صدائیں آئیں گی لبیک کہیں گے دِیوانے اِک حشر کھڑا ہو جائے گا! مجروح گلوں کی چیخوں سے گلچیں کا کلیجہ تڑپے گا ہر منصب جھوٹا لرزے گا سفاک خدا گِر جائیں گے! ہر جاں جو فروزاں ہو جائے ظلمت نہ مٹے، وہ رات نہیں زنجیر و سلاسل، زنّاری یہ نسلوں کی سوغات نہیں آغاز تمہی سے ہونا ہے غم سہنے والو چُپ کب تک؟ ”اے ظلم کے مارو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک؟”* ۔

یہ تم سے کہ دیا کس نے

یہ تم سے کہ دیا کس نے کہ تم بن رھ نہیں سکتے. یہ دکھ ہم سہ نہیں سکتے. چلو ہم مان لیتے ہیں کہ تم بن ہم بہت روےٰ. کئ راتوں کو نہ سوےٰ. مگر اب تم جو لوٹو گے ہمیں تبدیل پاؤ گے. بہت مایوس ہو گے تم اگر تم جاننا چاہو کہ ایسا کیوں کیا ہم نے. تو سن لو غور سے جاناں . پرانی روایت توڑ دی ہم نے. محبت چھوڑ دی ہم نے....

ﺩﺭﺑﺎﺭِ ﻭﻃﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍِﮎ ﺩﻥ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ

ﺩﺭﺑﺎﺭِ ﻭﻃﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍِﮎ ﺩﻥ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺰﺍ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﮔﮯ,ﮐﭽﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺰﺍ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮮ ﺧﺎﮎ ﻧﺸﯿﻨﻮ ﺍﭨﮫ ﺑﯿﭩﮭﻮ,ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺗﺨﺖ ﮔﺮﺍﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ,ﺟﺐ ﺗﺎﺝ ﺍﭼﮭﺎﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺏ ﭨﻮﭦ ﮔﺮﯾﮟ ﮔﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮﯾﮟ، ﺍﺏ ﺯﻧﺪﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﺭﯾﺎ ﺟﮭﻮﻡ ﮐﮯ ﺍﭨﮭﮯ ﮨﯿﮟ، ﺗﻨﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﭨﺎﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﭩﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﻮ, ﺑﮍﮬﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﻮ، ﺑﺎﺯﻭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﯿﮟ, ﺳﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﭼﻠﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﻮ, ﮐﮧ ﺍﺏ ﮈﯾﺮﮮ ﻣﻨﺰﻝ ﮨﯽ ﭘﮧ ﮈﺍﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮮ ﻇﻠﻢ ﮐﮯ ﻣﺎﺗﻮ ﻟﺐ ﮐﮭﻮﻟﻮ، ﭼﭗ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ ﭼﭗ ﮐﺐ ﺗﮏ ﮐﭽﮫ ﺣﺸﺮ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﮯ ﮔﺎ، ﮐﭽﮫ ﺩُﻭﺭ ﺗﻮ ﻧﺎﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ) ﻓﯿﺾ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﯿﺾ(

اتنی مدت بعد ملے ہو

اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو؟ ہر آہٹ سے ڈر جا تے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟ کاش کوئی ہم سے بھی پوچھے رات گئے تک کیوں جاگے ہو؟ میں دریا سے بھی ڈرتا ہوں تم دریا سے بھی گہرے ہو کون سی بات ہے تم میں ایسی اتنے اچھے کیوں لگتے ہو؟ پچھے مڑ کر کیوں دیکھتا تھا پتھر بن کر کیا تکتے ہو جاؤ جیت کا جشن مناؤ میں جھوٹا ہوں، تم سچے ہو اپنے شہر کے سب لوگوں سے میری خاطر کیوں الجھے ہو؟ کہنے کو رہتے ہو دل میں پھر بھی کتنے دور کھڑے ہو ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصے اپنی کہو اب تم کیسے ہو؟ محسن تم بدنام بہت ہو جیسے ہو، پھر بھی اچھے ہو

بات میری کبھی سنی ہی نہیں

بات میری کبھی سنی ہی نہیں جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں جان کیا دوُں کہ جانتا ہوں میں تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں دل لگی، دل لگی نہیں ناصح تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں داغ کیوں تُم کو بے وفا کہتا وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں )داغ دہلوی(

ﻭﮦ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺳﺒﮭﯽ ﺭﻧﮓ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ

ﻭﮦ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺳﺒﮭﯽ ﺭﻧﮓ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ, ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ ﭘﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﭼﻠﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻝ ﺗﻮ ﺍﺩﺍﺱ ﺗﮭﺎ ﭼﻠﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺗﻮ ﻧﻢ ﺭﮨﯽ ﭼﻠﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭ ﺗﻮ ﮐﮭﻼ, ﺷﺐ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﮐﺌﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮﺋﯿﮟ ﺩﺭِ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﮏ ﻣﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺷﻤﻊ ﺑﺪﺳﺖ ﺗﮭﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﻧﮧ ﭘﮍﺍ ﭘﺘﮧ,ﻣﺮﮮ ﮔﻞ ﻋﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺎﺯﮦ ﻏﺰﻝ ﮐﮩﯽ ﺳﻮ ﮨﮯ ﻧﺰﺭ ﺍﮨﻞ ﻓﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﮐﮧ ﻧﮧ ﻣﻞ ﺳﮑﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺎﻣﮧ ﺑﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﯾﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺳﻮ ﻣﺘﺎﻉ ﺟﺎﮞ ﮐﻮ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻠﭧ ﺁﺋﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﺮﻓﺘﮧ ﺩﻝ ﮐﺴﮯ ﺑﯿﭽﺘﮯ ﮐﮧ ﻣﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﻣﺮﯼ ﻃﺮﺯِ ﻧﻐﻤﮧ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﻏﺒﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺧﻮﺵ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﯾﮧ ﻣﺮﺍ ﻣﺰﺍﺝ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺑﮩﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﺲ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﻓﺮﺍﺯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ  ﺳﺒﮭﯽ ﺩﮐﮫ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ, ﺳﺒﮭﯽ ﻗﺮﺽ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ
چاند سا بدن کوئی آنکھ کی حویلی میں روز ایسے آتا ہے نور پھیل جاتا ہے روشنی سی ہوتی ہے آنکھ کی سیاہی میں آنکھ کھلنے لگتی ہے اور ہماری پلکوں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے خواب ٹوٹ جاتا ہے خواب ٹوٹ جانا بھی اک عجب اذیت ہے خواب ٹوٹ جائے تو نیند اکثر آنکھوں میں بین کرنے لگتی ہے ماتمی سی آنکھوں میں ایک شکل ابھرتی ہے اجنبی سے چہرے کو کون یاد رکھتا ہے یاد پھر بھی کرنا ہے ایک خواب اترنا ہے ایک خواب کی خاطر رات وضع کرتے ہیں اور سونے لگتے ہیں خواہشوں کے جنگل میں راستے نہیں ہوتے بھولنے کے ڈر سے ہم خود ہی لوٹ آتے ہیں خواہشوں کے جنگل میں تب کوئی بلاتا ہے بھولنے کے ڈر سے ہم پھر وہاں نہیں جاتے ہم وہاں نہ جائیں تو کوئی روٹھ جاتا ہے اور پھر اچانک ہی خواب ٹوٹ جاتا ہے
Libas Tan Sy Utar Dena, Kisi Ko Banhon K Haar Dena, Phir Us k Jazbon Ko Maar Dena. Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi Hai. Gunah Krnay Ka Soch Lena, Haseen Pariyan Daboch Lena, Phir Un k Jismon ko Noch Lena, Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi Hai. Kisi Ko Lafzon K Jaal Dena, Kisi Ko Jazbon Ki Dhaal Dena, Phir Us ki Izzat Uchhaal Dena, Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi Hai. Andhair Nagri Mein Chaltay Jana, Haseen Kaliyan Msaltay Jana, Or Apni Fitrat Py Muskrana, Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi H
Libas Tan Sy Utar Dena, Kisi Ko Banhon K Haar Dena, Phir Us k Jazbon Ko Maar Dena. Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi Hai. Gunah Krnay Ka Soch Lena, Haseen Pariyan Daboch Lena, Phir Un k Jismon ko Noch Lena, Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi Hai. Kisi Ko Lafzon K Jaal Dena, Kisi Ko Jazbon Ki Dhaal Dena, Phir Us ki Izzat Uchhaal Dena, Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi Hai. Andhair Nagri Mein Chaltay Jana, Haseen Kaliyan Msaltay Jana, Or Apni Fitrat Py Muskrana, Agar Mohabat Yehi Hy SAQI, To Muaf Krna Muje Nhi H
خیالی پلاؤ ھر رات خیالوں میں ’انھیں لاتا ھوں سو جاتا ھوں جانےکیا کیا خیالی پلاؤ پکاتا ھوں سو جاتا ھوں یوں تو دل میں کوئی تصویر ھی نہیں ’ان کی ھر رات دو چار نئی بناتا ھوں سو جاتا ھوں کبھی شکوہ کروں کبھی ’ان سے دلداری جھوٹی ’دنیا یوں سجاتا ھوں سو جاتا ھوں دل ھے کہ سمجھنا چاھتا ھی نہیں اسی لئے اسے بہلاتا ھوں سو جاتا ھوں بشارت اب تو ھر روز ایک غزل لکھتا ھے ھر رات ’انھیں ’سناتا ھوں سو جاتا ھوں
بھولے نہ کسی حال میں آدابِ نظر ہم مڑ کر نہ تجھے دیکھ سکے وقتِ سفر ہم اے حسن! کسی نے تجھےاتنا تو نہ چاہا برباد ہوا تیرے لیے کون، مگر ہم جینے کا ہمیں خود نہ ملا وقت تو کیا ہے لوگوں کو سِکھاتے رہے جینے کا ہنر ہم اب تیرے تعلق سے ہمیں یاد ہے اتنا اِک رات کو مہمان رہے تھے ترے گھر ہم دنیا کی کسی چھاؤں سے دھُندلا نہیں سکتا آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں جو خوابِ سحر ہم
"آج شب کوئی نہیں ہے" آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی خواب در خواب محلّات کے در وا ہیں کئی اور مکیں کوئی نہیں ہے، آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے "کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت" کوئی امّید، کوئی آس مسافر صورت کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں کوئی نہیں ہے آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دُور ہو تم ہر گھڑی سایہ گرِ خاطرِ رنجور ہو تم اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے -----------------------
کوئی موسم تو ایسا ہو کہ جب بچھڑے ہوؤں کی یاد کے جگنو چمک کھو دیں ۔۔۔ کسی کے ہجر میں رونے سے پہلے ہی میری آنکھیں ۔۔۔ کبھی سو دیں ۔۔۔ کوئی موسم تو ایسا ہو کہ جب سب پھول الفت کے کسی اَنمٹ محبّت کے میرے دل میں کھلیں پر ان میں وہ خوشبو نہ ہو باقی ‘ وہ خوشبو ، جو تمہارے قُرب میں مِحسوس ہوتی تھی ‘ کوئی موسم تو ایسا ہو کہ دل کے زخم بھر جایں اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر کتنا ہی اچھا ہو کہ ساری خواہشیں دل کی وہ سارے خواب اور ارماں یونہی گھُٹ گھُٹ کے مر جایں مجھے آزاد کر جایں
ا ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﺸﻢِ ﺣﯿﺮﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭨﮩﺮﺍ ﮬﻮﺍ ﺁﻧﺴﻮ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﮭﯿﻼ ﮬﻮﺍ ﺟﺎﺩﻭ ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﮬﻨﺴﺘﮯ ﮬﻮﮰ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮬﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﮎ ﮬﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭩﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﮩﺮ ﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺟﮕﻨﻮ ﮔﻼﺑﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺩﮬﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮬﻮﺍ ﺍﮎ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻧﺮﻡ ﺳﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﮩﮑﺎ ﮬﻮﺍ ﺍﮎ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﺟﮭﻮﻧﮑﺎ "ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮬﯿﮟ ...
یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے اِک شبِ غم کاٹ لی ہے، اِک شبِ غم اور ہے تم فقط دوزخ چشیدہ ہو نہیں سمجھو گے تم اور ہے نارِ حسد، نارِ جہنم اور ہے ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں ہے گہربار اور شبنم آنکھ پُرنم اور ہے اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اُٹھا سکتے ہو تم باغ میں وقت ِسحر پھولوں پہ شبنم اور ہے بال کھولے اُس نے ، جیسے بحرِ اسود کھل گیا ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اِک خم اور ہے بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اُس کی الگ لہر کا خم اور اُس کی زلف کا خم اور ہے کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اُس نے بالوں میں عدیم کچھ دیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے آج اُس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم آج کیفیت الگ ہے، آج عالم اور ہے
یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے اِک شبِ غم کاٹ لی ہے، اِک شبِ غم اور ہے تم فقط دوزخ چشیدہ ہو نہیں سمجھو گے تم اور ہے نارِ حسد، نارِ جہنم اور ہے ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں ہے گہربار اور شبنم آنکھ پُرنم اور ہے اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اُٹھا سکتے ہو تم باغ میں وقت ِسحر پھولوں پہ شبنم اور ہے بال کھولے اُس نے ، جیسے بحرِ اسود کھل گیا ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اِک خم اور ہے بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اُس کی الگ لہر کا خم اور اُس کی زلف کا خم اور ہے کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اُس نے بالوں میں عدیم کچھ دیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے آج اُس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم آج کیفیت الگ ہے، آج عالم اور ہے
یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے اِک شبِ غم کاٹ لی ہے، اِک شبِ غم اور ہے تم فقط دوزخ چشیدہ ہو نہیں سمجھو گے تم اور ہے نارِ حسد، نارِ جہنم اور ہے ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں ہے گہربار اور شبنم آنکھ پُرنم اور ہے اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اُٹھا سکتے ہو تم باغ میں وقت ِسحر پھولوں پہ شبنم اور ہے بال کھولے اُس نے ، جیسے بحرِ اسود کھل گیا ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اِک خم اور ہے بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اُس کی الگ لہر کا خم اور اُس کی زلف کا خم اور ہے کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اُس نے بالوں میں عدیم کچھ دیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے آج اُس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم آج کیفیت الگ ہے، آج عالم اور ہے
♥~Haan thi meri aankhen nam tere jaane ke baad,,, ♥~Main khush rehta tha tere muskurane ke baad,,, ♥~Mit jaate they gham, mit jaati thi thakan,,, ♥~Ek tere bas gale se lag jaane ke baad,,, ♥~Aankhein sajaati hai ab bhi khwab bas tere,,, ♥~Yakin hai,tu laut aayega Ik din thak jaane ke baad,,, ♥~Mujhko yakin hai tu ek din laut hi aayegi,,, ♥~Par waqt kehta hai ki mere chale jaane ke baad,,, «♣»|↓♥↓|«♣» ◊∕∕♥~♥~♥~♥◊∕∕ «♣»|↓♥↓|«♣» «♣»|↓↓|«♣» ♥____][____♥ —
جنــــابِ علـی ارمـؔـان سنگ زن ساری خدائی ہے 'خدا جانتا ھـے ہم نے کس طرح نبھائی ہے 'خدا جانتا ھـے یہ جو مصرع میں چمکتا ہے نمک آنسوؤں کا زندگــی بھر کی کـمائـی ہے' خدا جانتا ھــے شورِکم ظرف سے سہمے ہوئے سنّاٹے میں کس طرح بـات بنـائـی ھــے' خدا جانتـا ھـے دشت میں نام کمانا نہیں آسان میاں! عمر بھر خاک اڑائی ہے' خدا جانتا ہے کسی منزل پہ پہنچنے نہیں دیتی جو مجھے لذّت ِ آبلہ پائی ہے' خدا جانتا ہے یہ جو ہے حلقہءِ درویشاں میں عزّت صاحب! رقص کر کر کے کمائی ہے خدا جانتا ہے
aj ashkon ka tar tut gaya rishta-e-intazar tut gaya yun wo thukara ke chal diye goya ik khilauna tha pyar tut gaya roye rah-rah kar hichkiyan lekar saz-e-gam bar bar tut gaya aap ke berukhi ka shikava kya dil tha napaidar tut gaya dekh li dil ne besabati-e-gul phir tilism-e-bahar tut gaya ‘saif’ kya char din ke ranjish se itani muddat ka pyar tut gaya koi to bat chide aj bahut jee hai udas kam se kam rahamat-e-agyarke baten hi sahi ab to tanhai ko ye karb na hoga bardasht kuch nahi to dar-o-divar ke baten hi sahi ye bhi kya kam hai unhen qurbat-e-gul to hai nasib aj gul ke na sahi khar ke baten hi sahi ye to tai hai ki jiye jayenge har hal mein hum un ke lab par rasan-o-dar ke baten hi sahi
آگ ہے، پانی ہے، مٹی ہے، ہوا ہے مُجھ میں اور پھر ماننا پڑتا ہے کہ خُدا ہے مُجھ میں اب تو لے دے کے،،،،،، وہی شخص بچا ہے مُجھ میں مُجھ کو مُجھ سے جو جُدا کر کے چُھپا ہے مُجھ میں جتنے موسم ہیں سب جیسے کہیں مل جائیں ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مُجھ میں آئینہ یہ تو بتاتا ہے کہ،،، میں کیا ہوں، لیکن آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مُجھ میں اب تو بس،،،،،،،،، جان ہی دینے کی ہے باری میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مُجھ میں ،؟،
میں اپنی ہی تخلیق میں تحلیل ہوا ہوں وہ نقش بنایا ہے کہ خود نقش بنا ہوں قدرت نے مجھے لوح وقلم سونپ کے بھیجا میں اپنے زمانے کے مقدر کا خدا ہوں ہم ایک ہی منزل کے مسافر تو نہیں ہیں میں تجھ سے بچھڑ کے تجھے پھر آن ملا ہوں محسوس کرو مجھ کو، مرا جسم نہ ڈھونڈو میں فصل بہاراں کی جنوں خیز ہوا ہوں آئینہ تھا، میں زینت بازار وفا تھا حالات کے ہاتھوں سے مگر ٹوٹ گیا ہوں منصف ہو تو پھر مجھکو جہنم میں نہ جھونکو میں جسم کے دوزخ میں بہت دیر جلا ہوں
میں اپنی ہی تخلیق میں تحلیل ہوا ہوں وہ نقش بنایا ہے کہ خود نقش بنا ہوں قدرت نے مجھے لوح وقلم سونپ کے بھیجا میں اپنے زمانے کے مقدر کا خدا ہوں ہم ایک ہی منزل کے مسافر تو نہیں ہیں میں تجھ سے بچھڑ کے تجھے پھر آن ملا ہوں محسوس کرو مجھ کو، مرا جسم نہ ڈھونڈو میں فصل بہاراں کی جنوں خیز ہوا ہوں آئینہ تھا، میں زینت بازار وفا تھا حالات کے ہاتھوں سے مگر ٹوٹ گیا ہوں منصف ہو تو پھر مجھکو جہنم میں نہ جھونکو میں جسم کے دوزخ میں بہت دیر جلا ہوں
ﺟﮩﺎﮞ ﻣﺮﺩﮮ ﮨﻮﮞ ,ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮨﻮﮞ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺘﺒﮯ ﮨﻮﮞ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮔﺮ ﺑﺘﯽ ﺟﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺩﺭ ﭼﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺳﻮﮒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﻮ ﺑﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ۔’’ﯾﮧ‘‘ ﮐﯿﺴﯽ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺯﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﮔﺎﮌﺍ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺁﺩﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﭘﭽﮭﺎﮌﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺘﺒﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺴﺘﯽ ﺟﺎﮒ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺳﻮ ﺧﻮﻥِ ﺁﺩﻣﯿﺖ ﺳﮯ ﺳﺤﺮ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻧﮩﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺷﻮﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻃﺒﻠﮯ ﮐﯽ ﺗﮭﺎﭘﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺯﺧﻤﯽ ﺍﻻﭘﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﮏ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻟﺐ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺑﯿﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﺳﺎﺯ ﺑﮭﯽ ﻧﻐﻤﮯ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﮔﻮﺭﮐﻦ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﻻﺷﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﮭﺮﻭﮐﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮩﻮ ﺭﺳﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮔﮭﻨﮕﮭﺮﻭ ﺑﺠﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﺴﺘﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻥ ﻣﺤﻔﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺶ ﯾﺎ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﺎ ﻣﺎﺗﻢ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﻻﺷﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﺯﯾﮯ ﺩﻝ ﺧﻮﻥ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺭﻗﺺ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ!!
عنایتوں کا کبھی وحشتوں کا قائل ہوں محبتوں میں بڑی شدتوں کا قائل ہوں زمین شہر بھلے مجھ پہ تنگ کرو لیکن! تمہیں خبر ہے کہ میں ہجرتوں کا قائل ہوں یہ سوچ کر میرے آنگن میں تم دیا رکھنا ہوا کا دوست ہوں میں آندھیوں کا قائل ہوں ہر ایک موڑ پہ میں دل کی بات سنتا ہوں! میں راہ عشق میں کب مشوروں کا قائل ہوں کسی بھی شخص کو دشمن میں کہہ نہیں سکتا میں دشمنی میں بھی چند ضابطوں کا قائل ہوں
وفا سا قیمتی گوہر لٹا کر لوٹ آیا ہوں کسی کے ظرف کی حد آزما کر لوٹ آیا ہوں بجھی آنکھوں میں اب صحرا‘ بسے یا خواب یا بادل میں ہر امید اشکوں میں بہا کر لوٹ آیا ہوں اچانک ہی مسیحا کی حقیقت کھل گئی مجھ پر میں رستے زخم سینے سے لگا کر لوٹ آیا ہوں وہ اک سپنا کہ جس کی چاہ میں اک عمر جاگا تھا اسی سپنے سے اب نظریں چرا کر لوٹ آیا ہوں کہاں سودا سمایا تھا کہ منزل تک پہنچنا ہے کہاں منزل کو پھر نزدیک پا کر لوٹ آیا ہوں مجھے اسکو بتانا تھا میں اس بن جی نہیں سکتا مگر یہ بات ہونٹوں میں دبا کر لوٹ آیا ہوں بہت ہی زعم تھا ناصح کو اپنی پارسائی پر اسے میں سچ کا آئینہ دکھا کر لوٹ آیا ہوں کسی کی راہ میں آنکھیں جلائیں دل جلا ڈالا پھر انکی راکھ ساگر میں بہا کر لوٹ آیا ہوں مجھے اب عمر ساری دشتِ حیراں میں بھٹکناہے پلٹ جانے کا ہر نقشہ مٹا کر لوٹ آیا ہوں یہ دل پر منکشف ہے کہ جدا ہے اسکا ہر رستہ مگر پھر دل کی ہی باتوں میں آکر لوٹ آیا ہوں
دل ونظر کی عبادتیں ھوں تو آنسوؤں کو امام کرنا سمندروں کے سفر میں لازم ھے پانیوں سے کلام کرنا جو سجدہ گاہیں تلاش کرنے لگے تو عمریں گذار دو گے خود اپنے سائے کی صف بچھانا وھیں سجود و قیام کرنا میں کارواں سے بچھڑ کر اندھی مسافتوں کے عذاب میں ھوں مرا بھی اے ساربان شمس و قمر کوئی انتظام کرنا جہاں دل میں جو روشنی ھے وہ تیرا حصہ وہ تیرا قصہ جو ظلمتیں ھیں ملامتیں ھیں وہ سب کی سب میرے نام کرنا یہ تازہ لفظوں کے سارے گلدستے سوکھ جائیں گے جب وہ آئے تم ان کی آمد پہ احتیاطا کچھ اور بھی انتظام کرنا
Mere Dil Mein Mohabt Bahut Thi.. Magar Phir Bhi Usko Shikayat Bahut Thi.. Mera Dard Khulta Bhi Kiyoon Kisi Par.. Mujhe Muskrany Ki Aadat Bahut Thi.. Meri Zindgi Main Wo Lamhy Bhi Aye.. Teri Har kadam Par Zarurt Bahut Thi.. Manany Ka Mujh Main Hunar Nahi Tha... Par Usko Rooth Jane Ki Aadat Bahut Thi.
ئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے بامِ مینا سے ماہتاب اُترے دستِ ساقی میں، آفتاب آئے ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو سامنے پھر وہ بے نقاب آئے عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر تیری مہر و وفا کے باب آئے کر رہا تھا غم جہاں کا حساب آج تم یاد بے حساب آئے نہ گئی تیرے غم کی سرداری دل میں یوں روز انقلاب آئے جل اُٹھے بزم غیر کے در و بام جب بھی ہم خانماں خراب آئے اس طرح اپنی خامشی گونجی گویا ہر سمت سے جواب آئے فیض تھی راہ سر بسر منزل ہم جہاں پہنچے، کامیاب آئے
ہاتھ دیا اس نے مِرے ہاتھ میں میں تو ولی بن گیا اِک رات میں عشق کرو گے تو کماؤ گے نام تُہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں عشق بُری شے سہی پر دوستو دخل نہ دو تم مری ہر بات میں مجھ پہ توجہ ہے سب آفات کی کوئی کشش تو ہے مری ذات میں راہنما تھا مرا اِک سامری کھو گیا میں شہر طلِسمات میں مجھ کو لگا عام سا اِک آدمی آیا وہ جب کام کے اوقات میں شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی درد مہکنے لگا جذبات میں ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں ربط بڑھایا نہ قتیل اس لیے فرق تھا دونوں کے خیالات میں
اردو شاعری وہ بظاھر جو زمانے سے خفا لگتا ھے ہنس کر بولے بھی تو دنیا سے جدا لگتا ھے اور کچھ دیر نہ بجھنے دے اسے رب سحر ڈوبتا چاند میرا دست ہنر لگتا ھے جس سے منہ پھیر کے رستے کی ھوا گزری ھے کسی اجڑے ھوئے آنگن کا دیا لگتا ھے اب کے ساون میں بھی زردی نہ گئی چہروں کی ایسے موسم میں تو جنگل بھی ہرا لگتا ھے شہر کی بھیڑ میں کھلتے ھیں کہاں اس کے نقوش آؤ تنھائی میں سوچیں کہ وہ کیا لگتا ھے منہ چھپائے ھوئے گزرا ھے جو احباب سے آج اس کی آنکھوں میں بھی کوئی زخم نیا لگتا ھے اب تو"محسن" کے تصور میں اتر رب جلیل اس اداسی میں تو پتھر بھی خدا لگتا ھے
اردو شاعری کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا اپنے آنسو اپنی آنکھہ میں رہنے دے ریت پہ کب تک ہیرے موتی رولے گا آؤ شہر کی روشنیاں ہے دیکھہ آئیں کون ہماری خالی جیب ٹٹولے گا لاکھہ میرے ہونٹوں پر چپ کی مہریں ہوں میرے اندر کا فنکار تو بولے گا دیکھہ وہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اپنا سارا زہر تمھیں میں گھولے گا اے سوداگر چاہت کی جاگیروں کے کس میزان میں تو اس جنس کو تولے گا محسن اس کی نرم طبیعت کہتی ہے پل دو پل وہ میرے ساتھہ بھی ہو لے گا