Posts

Showing posts from October 16, 2016

Dance Party

Image
خــــزاں آ کـــر دریچـــوں میـــں  ٹھــــــــر جـــــائــــے  تــــو دیــــواروں پر کیلنڈر بــدلنے سے  بہــــــاریں تـــو نہیـــں آتیـــں

احمد فراز

احمد فراز نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم ، شبِ انتظار کوئ تو ہو  کسے بزمِ شوق میں لاۂیں ہم ، دلِ بے قرار کوئ تو ہو کسے زندگی ہے عزیز آب ، کسے آرزوۂۓ شبِ طرب ...!  مگر اے نِگارِ وفا طلب ، ترا اعتبار کوئ تو ہو کہیں تار دامنِ گْل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے  کہ نشاں فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئ تو ہو یہ اْدس اْداس سے بام و دَر ، یہ اْجاڑ اْجاڑ سی رہگزر  چلو ہم نہیں نہ سہی مگر ، سرِ کوۓ یار کوئ تو ہو یہ سکوْنِ جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بْجھ چلے  وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روز گار کوئ تو ہو سِر مقتل شبِ آرزو ہے کچھ تو عشق کی آبرو  جو نہیں عدو تو " فراز " تْو کہ نصیبِ دار کوئ تو ہو

کیا آپ جنت میں جانا چاہتے ہیں ؟

کیا آپ جنت میں جانا چاہتے ہیں ؟ ********************* ********************* ایک صاحب نے نبی کریم ﷺسے دریافت کیا یا رسول اللہ! والدین کا اولا د پر کیا حق ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ تیر ی جنت اور دوزخ ہیں ۔ (یعنی چاہے تو ان کی خدمت کرکے ان کو خوش رکھ کر جنت میں چلا جا اور چاہے تو ان کی نافرمانی کرکے دوزخ میں چلا جا ) نبی کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے۔ اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے اور یہ بھی فرمایا کہ سارے گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں معاف کردیتے ہیں ۔ سوائے والدین کو ستانے کے کہ اس کی سزا مرنے سے پہلے دے دیتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جوکوئی اپنے والدین کی طرف ایک مرتبہ رحمت کی نظر سے دیکھے اللہ تعالیٰ اس کےلیے ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج کو ثواب لکھ دیں گے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا یا رسول اللہ! اگر کوئی سو مرتبہ روزانہ رحمت کی نظر سے دیکھے تب بھی یہی اجر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں کیا شک ہے اللہ بہت بڑا ہے اور ہر عیب سے پاک ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے فرمایا جنت

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پِھر سہی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پِھر سہی کس نے توڑا دل ہمارا، یہ کہانی پِھر سہی دل کے لُٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے نام آئے گا تمہارا، یہ کہانی پِھر سہی نفرتوں کے تِیر کھا کر دوستوں کے شہر میں ہم نے کِس کِس کو پکارا، یہ کہانی پِھر سہی کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں کون جیتا کون ہارا، یہ کہانی پِھر سہی مسرورؔ انور

عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی...!

عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی...! وہ والد کی قبر کی زیارت کے بعد واپس آ رھا تھا ،یہ زیارت اسے تقریباً 8 سال بعد نصیب ھوئی تھی جب اسے یورپ سے لوٹنا نصیب ھوا تھا ، جاتے وقت والد اسے ائرپورٹ چھوڑنے آئے تھے ، وہ ھمیشہ اسے بچے کی طرح ٹریٹ کرتے تھے گویا وہ کچھ جانتا ھی نہیں ھے ، اگرچہ وہ اعلی تعیم کے لئے یورپ بھیجا جا رھا تھا مگر والد صاحب اسے ٹوتھ برش اور پیسٹ استعمال کرنا بھی کچھ یوں سمجھا رھے تھے گویا وہ پرائمری سکول کا بچہ ھے ، وہ ایک سیدھے سادے زمین دار اور ٹوٹ کر پیار کرنے والے والد تھے - ماں جب اسے یورپ کی لڑکیوں سے بچنے کی تلقین کر رھی تھیں تو والد صاحب پریشان ھو رھے تھے ، آخر انہوں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ یہ ابھی بچہ ھے تم کس قسم کی باتیں اس سے کر رھی ھو ؟ وھی پیار اور اعتبار کرنے والے والد اسے دیکھنے کی تمنا دل میں لئے اگلے جہان کے راھی ھو گئے تھے ،، بیماری کے دوران وہ بار بار اس کا پوچھتے رھے ، اس کے لئے نصیحتیں نوٹ کرواتے رھے ، 1982 میں ابھی موبائیل فون کا رواج نہ تھا ، یوں باپ بیٹا آخری بات بھی نہ کر سکے ، اس نے فلسفہ پڑھا تھا ،ماسٹر اور پھر پی ایچ ڈی کر کے عارضی طور پر واپ

راحت اندوری

وح بھی چلتی تھی تو وہ بادِ صبا کہتے تھے پاؤں پھیلائے ،اندھیروں کو ضیا کہتے تھے ان کا انجام تجھے یاد نہیں ہے شاید اور بھی لوگ تھے جو خود کو خدا کہتے تھے راحت اندوری

ﺍﻟﻠﻪ ﺍﮐﺒﺮ

Image
ﺍﻟﻠﻪ ﺍﮐﺒﺮ ..." ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﺠﺮ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﮐﯽ ﻧﯿﺖ ﺑﺎﻧﺪﮬﯽ ... ﻃﻠﻮﻉ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﻏﺎﻟﺒﺎ ﭘﻨﺪﺭﻩ ﺑﯿﺲ ﻣﻨﭧ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ . " ﺳﺒﺤﻨﮏ ﺍﻟﻠﮭﻢ ﻭﺑﺤﻤﺪﮎ ﻭ ﺗﺒﺎﺭﮎ ﺍﺳﻤﮏ ..." ﻣﯿﺮﺍ ﺫﻫﻦ ﺑﮭﭩﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ ... ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻟﯿﭧ ﺳﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ... ﺑﮩﺖ ﻧﯿﻨﺪ ﺁ ﺭﻫﯽ ﻫﮯ ... ﮐﺘﻨﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﻫﮯ ﻓﺠﺮ ﭘﻪ ﺍﭨﮭﻨﺎ ! " ﺍﻟﺤﻤﺪﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﻠﻤﯿﻦ ..." ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﭙﮍﮮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺳﺘﺮﯼ ﮐﯿﮯ ... ﻣﻤﺎ ﻧﮯ ﺑﻮﻻ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﻮ ... ﭘﺮ ... ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮐﺎﻡ ﻫﻮﺗﮯ ﻫﯿﮟ ... ﮐﯿﺎ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻫﮯ ... ﭨﺎﺋﻢ ﻫﯽ ﻧﻬﯿﮟ ﺑﭽﺘﺎ ! " ﺍﯾﺎﮎ ﻧﻌﺒﺪ ﻭﺍﯾﺎﮎ ﻧﺴﺘﻌﯿﻦ ..." ﺍﻭﻩ ... ﺷﭧ ... ﻻﺋﭧ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ ... ﺍﻟﻠﻪ ﭘﻮﭼﮭﮯ ﺍﻥ ﻭﺍﭘﮉﺍ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ... ﺁﺝ ﻟﮕﺘﺎ ﻫﮯ ﮐﻪ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﻋﺒﺎﯾﺎ ﭘﮩﻦ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ! " ﻗﻞ ﻫﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﺣﺪ ..." ﮐﻞ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﯽ ﻋﺸﺎﺀ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ... ﻓﺠﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﺎﺀ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﻮ ﻧﻔﺎﻕ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ... ﺳﻮﺭﯼ ﺍﻟﻠﻪ ﺟﯽ ... ﺁﺝ ﻗﻀﺎ ﭘﮍﮪ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ ! " ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺭﺑﯽ ﺍﻟﻌﻈﯿﻢ ..." ﻫﻮﺍ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﯿﺰ ﭼﻞ ﺭﻫﯽ ﻫﮯ ... ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺃﻧﺪﮬﯽ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﺎﮞ ... ﻟﮕﺘﺎ ﻫﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﻫﻮﮔﯽ ... ﺍﻟﻠﻪ ﺟﯽ ... ﭘﻠﯿﺰ ... ﺭﺣﻢﺕ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﺑﺮﺳﺎ ﺩﯾﻨﺎ ... ﻋﺮﺻﻪ ﻫﯽ ﻫﻮﮔﯿﺎ ﻫﮯ ﺑﺎﺭﺵ ﺩﯾﮑﮭﮯ ! &quo

ﺍﻣﺸﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﮐﻞ ﮐﯽ ﺣﮑﺎﯾﺎﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ

ﺍﻣﺸﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﺎﮐﻞ ﮐﯽ ﺣﮑﺎﯾﺎﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺩﻝ ﭼﮭﯿﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﺳﺖِ ﺣﻨﺎﺋﯽ.. ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﮯ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺍُﺑﮭﺮﺍ ﮬﻮﺍ ﺳﯿﻨﮧ.. ﮐﯿﺎ ﮔﺎﺕ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﮔﺎﺕ ﮨﮯ، ﮐﯿﺎ ﮔﺎﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺩﺷﻨﺎﻡ ﮐﺎ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﺰﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﺳﮯ.. ﺻﻠٰﻮﺕ ﮬﮯ، ﺻﻠٰﻮﺕ ﮬﮯ، ﺻﻠٰﻮﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺟﺮﺃﺕ ﮐﯽ ﻏﺰﻝ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺳُﻨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻭﺍﮦ.. ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﺷﯿﺦ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺑﺨﺶ "ﺟﺮﺍﺕ"

حضرت امام حسین علیہ السلام

نذرانہء عقیدت بحضور حضرت امام حسین علیہ السلام (حفیظ جالندھری مرحوم کی زمین میں ) شاعر : ندیم احمد صدیقی ھے خیروشر بٹا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام ہے ڈٹا ہوا  کہ سر تو اس کی دین ہے۔ھو ساتھ یا کٹا ہوا  ستم تو شر کی ریت ہے۔ اخیر حق کی جیت ہے  ثبات وہ غضب کا ہے۔۔۔۔۔۔۔ نہ پاٶگے ہٹا ہوا ”یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نور عین ہے“ جو حوصلےمیں فرد ھے ۔ وہ اک عجیب مرد ھے  یہ وہ ھے جس کے خون سے رخ یزید زرد ھے  سوار شانہء نبی ۔۔۔۔ وہ پسر فاطمہ علی  یہ تخت و تاج و زر زمیں نظر میں جس کی گرد ہے ”یہ بالیقیں حسین ھے نبی کا نور عین ھے “ یزیدیت کی دھوپ میں یہ کربلا کی شان ھے  کہ نقش پاۓ بن علی ۔۔۔۔۔۔ سبھی کا سائبان ھے  کہے زمیں بچشم نم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارے آسمان ھے چلے ہو مارنے اسے نبی کی جس میں جان ہے ”یہ بالیقیں حسین ھے نبی کا نور عین ھے“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں کو ناز اداواں دا

کہیں کو ناز اداواں دا کہیں کو ناز وفاواں دا اساں پیلے پتر درختاں دے !!! ساکو رہیندے خوف ہواواں دا

کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے

Image
کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے وہ وادیاں وہ فضائیں کہ ہم ملے تھے جہاں میری وفا کا وہیں پر مزار آج بھی ہے نا جانے دیکھ کے کیوں اُنکو یہ ہو احساس کہ میرے دل پہ اُنہیں اختیار آج بھی ہے وہ پیار جس کے لیؑے ہم نے چھوڑ دی دنیا وفا کی راہ میں گھائل وہ پیار آج بھی ہے یقیں نہیں ہے مگر آج بھی یہ لگتا ہے میری تلاش میں شائد بہار آج بھی ہے نا پوچھ کتنے محبت کے ذخم کھائے ہیں کہ جن کو سوچ کے دل سوگوار آج بھی ہے کسی نظر کو تیرا انتظار آج بھی ہے کہاں ہو تم کہ یہ دل بےقرار آج بھی ہے... 💟

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے کچھ پا کر کھونا ھے ، کچھ کھو کر پانا ھے جیون کا مطلب تو ، آنا اور جانا ھے دو پل کے جیون سے ، اک عمر چرانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے تو دھار ہے ندیا کی ، میں تیرا کنارا ھوں تو میرا سہارا ھے ، میں تیرا سہارا ھوں آنکھوں میں سمندر ھے ، آشاؤں کا پانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے طوفان تو آنا ھے ، آ کر چلے جانا ھے بادل ھے یہ کچھ پَل کا ، چھا کر ڈھل جانا ھے پرچھائیاں رہ جاتیں ، رہ جاتی نشانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے جو دل کو تسلی دے، وہ ساز اٹھا لاؤ دم گُھٹنے سے پہلے ھی ، آواز اٹھا لاؤ خوشیوں کا ترنم ھے ، اشکوں کی زبانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ھے "سنتوش آنند"

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں​ یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہی ڈھونڈنا ہے نیا پیرائے اظہار ہمیں استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ہے اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے تو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات تو نے چک

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے جب ہے یہ خانہ ء دل آپکی خلوت کے لئے پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے (عبید اللہ علیم)

ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺕ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﺳﮯ ﺳﺠﯽ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﯽ

Image
ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺕ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﺳﮯ ﺳﺠﯽ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔۔۔۔ ﻣﮩﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ ﭼﮩﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﺘﻨﯽ ﺧﻮﺏ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﮌﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ !!! ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ۔ ۔ ﺧﺰﺍﮞ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ۔ ۔ ۔ ﻭﻓﺎ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺟﻔﺎ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ۔ ۔ ۔ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ ۔!! ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺳﺠﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ !! ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺗ ﺮﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﺠﯽ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ۔ ۔ ﻓﻠﮏ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺗﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺳﻤﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ۔ !! ﻭﻓﺎ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ !! ﺧﻮﺷﯽ ﺑﻦ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﭼﮩﮑﺘﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ﺳﮑﻮﻥ ﺩﻝ ﺑﮍﮬﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺕ ﺭﻧﮕﻮں ﺳﮯ ﺳﺠﯽ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ۔۔ ۔۔ ۔۔!! ﺑﻐﺎﻭﺕ ﮐﯽ ﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺟﻔﺎ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭﮦ ﮨﻮ ﻭﻓﺎﺀﯾﮟ ﺟﺐ ﺳﺴﮑﺘﯽ ﮨﻮﻥ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺭﻧﮓ ﻭﻓﺎ ﮐﻮ ﺍﻭﮌﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ ۔ !! ﺟﻔﺎ ﮐﮯ ﮔﺮﻡ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺎﯾﮧ ﺑﻦ ﮐﮧ ﭼﮭﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ ۔ ۔ !!! ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺕ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﺠﯽ ﺗﺘﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺟﺐ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺭﺷﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻗﯿﺪ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﮨﻮﺱ ﮐﻮ ﺟﺐ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﻣﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻇﻠﻢ،،،ﺳﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﮨﻮﺱ ﮐﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﺱ ﭘﮧ ﺩﺍﻍ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ۔ ۔ ۔؟؟؟؟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺮ ﭘﮧ ﺗﻮ ﻧﻮﺭﯼ ﮐﮩﮑﺸﺎﮞ ﮐﺎ ﺗﺎﺝ ﺳﺠﺘﺎ ﮨﮯ۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم سے پیار کی باتیں نہیں اچھّی

وہ کہتے ہیں کہ ہم سے پیار کی باتیں نہیں اچھّی کوئی سمجھائے یہ تکرار کی باتیں نہیں اچھّی تمہاری ہی طرح اغیار بھی اچھّے سہی لیکن ہمارے سامنے اغیار کی باتیں نہیں اچھّی شبِ وصل آپ کا عُذرِ نزاکت کون مانے گا کہے دیتے ہیں ہم تکرار کی باتیں نہیں اچھّی عدُو کے ساتھ بہرِ فاتحہ اور میرے مدفن پر بُہت اچھّا مگر سرکار کی باتیں نہیں اچھّی ہماری زندگی کی کامیابی کی دُعا اور تُم نہ چھیڑو، طالعِ بیمار کی باتیں نہیں اچھّی لکھیں تو اپنا حالِ دل اُنہیں کیوں کر لکھیں اختر وہ لکھتی ہیں کہ خط میں پیار کی باتیں نہیں اچھّی اختر شیرانی

محسن احسان

Image
معروف شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم محسن احسان 15 اکتوبر 1932ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ محسن احسان کا اصل نام احسان الٰہی تھا . ایم اے اردو کرنے کے بعد شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے اور پروفیسر کے عہدے سے ریٹائر ہو ئے۔ آخری دم تک علمی و ادبی کاموں میں مشغول رہے۔  محسن احسان اچھے شاعر بھی ہیں اور اچھے انسان بھی۔ ان کے شعر کی ساری خوبیاں، نرم لہجہ، متوازن فکر، احساس کی دھیمی آنچ،خوبصورت الفاظ و تراکیب کا برمحل استعمال، ارض وطن سے پرسوز پیار، لیلائے صداقت کا عشق۔۔۔ یہ سبھی ان کے کردار کا حصہ اور ان کی شخصیت کا عکس ہیں۔  ان کے شعری مجموعوں میں ناگزیر، ناتمام، ناشنید، نارسیدہ، مٹی کی مہکارشامل ہیں۔ بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کا مجموعہ ’’پھول پھول چہرے‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کچھ انگریزی کتابوں کے تراجم بھی کئے ہیں۔ خوشحال خان خٹک کی رباعیات کا اردو منظوم ترجمہ بھی کیا جو پشتو اکیڈمی پشاور نے شائع کیا۔ مزید برآں بچوں کے لیے بہت ساری کہانیاں، تنقیدی مضامین اور ہندکو میں نظمیں بھی ان کی تخلیقات میں شامل ہیں۔ محسن احسان کی کئی نظموں کا انگلش، چائینز، ہندی اور ملائیشین زبان

آندھی چلی تو نقشِ کفِ پاء نہیں ملا

آندھی چلی تو نقشِ کفِ پاء نہیں ملا دل جس سے مل گیا ، وہ دوبارہ نہیں ملا ھم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رھے اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا۔ آواز کو تو کون سمجھتا ، کہ دور دور خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا قدموں کو شوقِ آبلہ پائی تو مل گیا لیکن بہ ظرفِ وُسعتِ صحرا نہیں ملا۔ کِنعاں میں بھی نصیب ھُوئی خود دریدگی چاکِ قبا کو دستِ زلیخا نہیں ملا مہر و وفا کے دشت نوردو جواب دو تم کو بھی وہ غزال ملا ، یا نہیں ملا ؟؟ کچّے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ھوئی مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا

یکطرفہ محبت

Image
تکلیف یہ نہیں ہوتی کہ آپ یکطرفہ محبت کریں اور دوسرے دل میں آپ کے لئے محبت نہ جاگے.تکلیف یہ بھی نہیں ہوتی کہ آپ کسی کو پسند کریں اور وہ آپ کو ٹھکرا دے. تکلیف تو یہ ہوتی ہے کہ آپ محبت اور اس کے وجود سے بے خبر اپنے طریقے سے زندگی گزار رہے ہو پھر اچانک سے کوئی آپ کی زندگی میں آئے.....آپ کا ہاتھ تھامے....آپ کے راستے پہ کہکشاں بٹھائے…. آپ پہ اپنی جان لٹائے... پھر جب آپ کو ان عنایتوں کی عادت ہوجائے. آپ کے دل کی بنجر زمین پہ محبت کی کونپلیں پھوٹنے لگیں ....  وہ شخص اچانک سے منہ موڑ لے...اس شخص کے منہ موڑتے ہی وہ کونپلیں یکدم درخت بن جائیں اور آپ کی ساری ذات پہ حاوی ہو جائیں .............  دیکھتے ہی دیکھتے یہ درخت آکٹوپس بن جائے اور آپ کی ہڈیوں کو اپنی گرفت میں اس طرح سے لے کہ وہ تڑخنے لگ جائیں . آپ اس شخص کی طرف دیکھیں اور وہ آپ پر تھوک دے... یہ ہوتی ہے تکلیف.... یہ ہوتی ہے اذیت.... یہ ہوتا ہے ٹوٹنا.... یہ ہوتا ہے مرنا !!!

ہنسے تو آنکھ سے آنسو رَواں ہمارے ہُوئے

ہنسے تو آنکھ سے آنسو رَواں ہمارے ہُوئے کہ ہم پہ دوست بہت مہرباں ہمارے ہُوئے بہت سے زخم ہیں ایسے، جو اُن کے نام کے ہیں بہت سے قرض سَرِ دوستاں ہمارے ہُوئے کہیں تو، آگ لگی ہے وجُود کے اندر کوئی تو دُکھ ہے کہ، چہرے دُھواں ہمارے ہُوئے گرج برس کے نہ ہم کو ڈُبو سکے بادل تو یہ ہُوا، کہ وہی بادباں ہمارے ہُوئے فرازؔ ! منزلِ مقصُود بھی ، نہ تھی منزِل کہ ہم کو چھوڑ کے، ساتھی رَو اں ہمارے ہوئے

درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے

درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے کسے خبر ، کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے تعلقات ابھی اِس قدر نہ ٹوٹے تھے کہ ـــ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے وہ اَب ملے بھی تو ملتا ہے اِس طرح جیسے بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر گلی سے آج بھی اُن کی صدا گزرتی ہے یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل مصیبتوں کی یہاں اِنتہا گزرتی ہے بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں ، مــــگر اب کے دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسن درِ قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے۔۔۔!!
Image
نام سید محمد جعفر اور حیات تخلص تھا۔ 1912ء میں امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم کا آغاز سید المدارس سے شروع ہوا جہاں علوم مشرقیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ رئیس امروہوی ان کے ہم سبق تھے۔ ایک ماہ نامہ’’حیات‘‘ امروہہ سے نکالا جو کچھ عرصے بعد بند ہوگیا۔ اس کے بعد ذریعہ معاش کے لیے میرٹھ آگئے جہاں دارالعلوم منصبیہ میں ملازمت کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصہ مدرس کے فرائض بھی انجام دیے۔ انھیں شعروشاعری سے لڑکپن سے شوق تھا۔ کمال امروہوی اور دیگر دوستوں کی ایما پر بمبئی چلے گئے جہاں کئی فلموں کے گانے لکھے۔ فلم’’پکار‘‘ کے گانے انھی کے لکھے ہوئے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ عین شباب میں16 اکتوبر 1946ء کو امروہہ میں انتقال کرگئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشعار ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے بج رہا ہے اور بے آواز ہے ۔۔ لے نہ ٹوٹے زندگی کے ساز کی زندگی آواز ہی آواز ہے (فلم سکندر میں یہ گیت نسیم بانو نے گایا گیا تھا۔اس زمانے میں اداکار گانا خود گاتے تھے کسی اور کے گانے پر اداکاری نہیں کرتے تھے) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاشق کی بھی ہستی ہے دنیا میں عجب ہستی زندہ ہے تو رسوا ہے مر جاۓ تو افسانہ

واسطہ حسن سے کیاشدّت جذبات سے کیا؟

واسطہ حسن سے کیاشدّت جذبات سے کیا؟ عشق کو تیرے قبیلے یامیری ذات سے کیا؟ میری مصروف طبیعت بھی کہاں روک سکی وہ تویاد آتاہے اسُ کو میرے دن رات سے کیا؟ پیاس دیکھوں یاکروں فکر کہ گھر کچا ہے ؟ سوچ میں ہوں کہ میرارشتہ ہے برسات سے کیا؟ آج اسے فکرہے کیالوگ کہیں گے محسن کل جوکہتاتھا مجھے رسم وروایات سے کیا؟ محسن نقوی

سائیں

سائیں کوئی علی آکھے، کوئی ولی آکھے کوئی کہے داتا، سچے مالکاں نوں مینوں سمجھ نا آوے ، کی نام دیواں ایس گول چکی دیاں چالکاں نوں روح دا اصل مالک اوہی منیے جی جیدا نام لیے تاں سرور ہووے اکھاں کھلیاں نوں محبوب دسے اکھاں بند ہوونڑ تاں حضور ہووے کوئی سونڑ ویلے ، کوئی نونڑ ویلے کوئی گونڑ ویلے تینوں یاد کردا اک نظر توں مہر دی مار سائیں سرتاج وی کھڑا فریاد کردا سائیں وے ساڈی فریاد تیرے تائیں سائیں وے باہوں پھڑ بیڑا بنے لائیں سائیں وے میریاں گنہاں نوں لُکائیں سائیں وے حق وچ فیصلے سنائیں سائیں وے ڈگئے تاں پھڑ کے اٹھائیں سائیں وے اوکھے سوکھے راہاں چوں لنگاہیں سائیں وے زندگی دے بوجھ نوں چُکائیں سائیں وے فکراں نوں ہوا چ اڈائیں سائیں وے کھوٹیاں نوں کھرےچ ملائیں سائیں وے ماڑیاں دی منڈی نا وکائیں سائیں وے محنتاں دے مُل وی پوائیں سائیں وے سِلّے سِلّے نیناں نوں سکائیں سائیں وے پاک صاف روحاں نوں ملائیں سائیں وے سارے لگے داغ وی دھوائیں سائیں وے بھلیاں نوں انگلی پھڑائیں سائیں وے بس پٹی پیار دی پڑھائیں سائیں وے دلاں دے گلاب مہکائیں سائیں وے مِہراں والے مینہ وی ورسائیں سائیں وے زمین جہیاں خوبیاں لے آئیں سائی

ﮨﻢ ﺳﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﮯ ﺧﺎﻝ ﻭ ﺧَﺪ ﭘُﻮﭼﮭﻮ

ﮨﻢ ﺳﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﮯ ﺧﺎﻝ ﻭ ﺧَﺪ ﭘُﻮﭼﮭﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﻣﻘﺘﻞ ﻣﯿﮟ ﺷﺐ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﻢ ﭘﻠﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻔﺮ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺳﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﺟﺎﮔﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺳﺎﺭﯼ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﻭﺻﻞ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ! ﮨﺠﺮ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﺩِﻝ ﭘﮧ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﺁﺝ ﺗﻮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻨﮯ ﺩﻭ ﺁﺝ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﮯ ﻧﻮﺷﯽ ﮔﯿﻼﻧﯽ

میں عشق الست پرست ہوں

میں عشق الست پرست ہوں میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید مرا نام سنہرا سانورا، اک سندرتا کا وید مری آنکھ قلندر قادری، مرا سینہ ہے بغداد مرا ماتھا دن اجمیر کا، دل پاک پٹن آباد میں کھرچوں ناخنِ شوق سے، اک شبد بھری دیوار وہ شبد بھری دیوار ہے، یہ رنگ سجا سنسار میں خاص صحیفہ عشق کا، مرے پنے ہیں گلریز میں دیپک گر استھان کا، مری لو میٹھی اور تیز میں پریم بھری اک آتما، جو خود میں دھیان کرے میں جیوتی جیون روپ کی، جو، ہر سے گیان کرے یہ پیڑ پرندے تتلیاں، مری روح کے سائے ہیں یہ جتنے گھایل لوگ ہیں، میرے ماں جائے ہیں میں دور حسد کی آگ سے، میں صرف بھلے کا روپ مرا ظاہر باطن خیر ہے، میں گیان کی اجلی دھوپ من مکت ہوا ہر لوبھ سے، اب کیا چنتا؟ کیا دُکھ؟ رہے ہر دم یار نگاہ میں، مرے نینن سکھ ہی سکھ ہیں ایک سو چودہ سورتیں، بس اک صورت کا نور وہ صورت سوہنے یار کی، جو احسن اور بھرپور میں آپ اپنا اوتار ہوں، میں آپ اپنی پہچان میں دین دھرم سے ماورا، میں ہوں حضرت انسان

فاصلے.

فاصلے.  - شام ہوتے ہی نوکِ مژگاں پر یاد کے جگنو رقص کرتے ہیں  ذہن کے کینوس پہ تصویریں  بنتی، مٹتی، بگڑتی رہتی ہیں  دل کے گولّک میں خوشنما لمحے  بنکے سِکّے ٹہر سے جاتے ہیں  خواب آنکھوں سے اشک کی صورت  قطرہ قطرہ بکھرنے لگتے ہیں  جنگ امید و بیم کے مابین  یونہی جاری ہمیشہ رہتی ہے  خواب و تعبیر کے اسی صورت  فاصلے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں.

میرے ماہ و سال کے بیچ میں .... کوئ ایسا لمحہ گیا نہیں

میرے ماہ و سال کے بیچ میں .... کوئ ایسا لمحہ گیا نہیں  تیرا نام میں نے لیا نہیں... تْجھے یاد میں نے کیا نہیں  تیرا کون سا وہ مدار تھا.... جہاں گردشیں میری رْک گۂیں  تیرا کون سا وہ خیال تھا.... جسے دھیان میں نے دیا نہیں  یہاں ہر قدم پہ ہیں حادثے.... یہ خیال ہی دل کو تھکا گیا  یہ سفر کہ سیرتِ طویل ہے .... ابھی ایک قدم تک اْٹھا نہیں  یہ میرا انا کی ہے سرکشی.... جو وصف ایسے سِکھا گئ  میں وہ دریا ہوں جو گِرا نہیں .... وہ پہاڑ ہوں ، جو ہِلا نہیں  کوئ ایک آنسو ایسا دے..... دَر و بام اپنے سجا لوں میں  تْجھے کیا خبر میری راہ میں.... کوئ تارا ، جْگنو ، دیا نہیں  کوئ بے قراری سی آج بھی.... میرے دل میں خار ہے کھینچتی  کوئ درد تھا جو دبا نہیں..... کوئ آنسو تھا جو بہا نہیں  اْسے بعد برسوں کے سوچ کے ... .. یونہی ایک لمحہ کو کیا ہوا  کوئ سانس تھی جو چلی نہیں ..... کوئ ضبط ہے جو ہوا نہیں

گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

گرمیِ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لئے ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم شعلۂ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں خود نمائی تو نہیں شیوۂ اربابِ وفا جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو

جو پھول سارے گلستاں میں سب سے اچھا ہو  فروغِ نور ہو جس سے فضَاۓ رنگیں میں خزاں کے جور و ستم کو نہ جس نے دیکھا ہو  بہار نے جسے خونِ جگر سے پالا ہو وہ ایک پھول سماتا ہے چشمِ گلچیں میں ہزار پھولوں سے آباد باغِ ہستی ہے  اجل کی آنکھ فقط ایک کو ترستی ہے کئ دلوں کی اْمید کا جو سہارا ہو  فضاۓ دہر کی آلودگی سے بالا ہو  جہاں میں آکے ابھی جس نےکچھ نہ دیکھا ہو نہ قحطِ عیش و مسرّت ، نہ غم کی ارزانی  کنارِ رحمتِ حق میں اسے سْلاتی ہے  سْکوتِ شب میں فرشتوں کی مرثیہ خوانی طواف کرنے کو صبحِ بہار آتی ہے  صبا چڑھانے کو جَنّت کے پھول لاتی ہے

_برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پِھر میں نے

_برف جیسے لمحوں کو دی ہے مات پِھر میں نے دِل میں درد سُلگایا، آج رات پِھر میں نے صُبح کے درِیچے میں جھانک اے شبِ ہِجراں کر دِیا تُجھے ثابت، بے ثبات پِھر میں نے _کیا کِسی نے دستک دی، پِھر کسی ستارے پر رقص کرتے دیکھی ہے کائنات پِھر میں نے اُٹھ کھڑا نہ ہو یارو! پھر نیا کوئی فِتنہ _چھیڑ دی ہے محفل میں اُس کی بات پِھر میں نے شاید اِس طرح دُنیا میری رہ پہ چل نکلے قریہ قریہ بانٹی ہے اپنی ذات پِھر میں نے بھر گیا قتیلؔ اکثر جو ستارے آنکھوں میں چاند رات کاٹی ہے اُس کے ساتھ پِھر میں نے

ﻣﯿﮟ ﻧﻌﺮﮦٔ ﻣﺴﺘﺎﻧﮧ، ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺧﯽِ ﺭﻧﺪﺍﻧﮧ

ﻣﯿﮟ ﻧﻌﺮﮦٔ ﻣﺴﺘﺎﻧﮧ، ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺧﯽِ ﺭﻧﺪﺍﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺅﮞ____ﭘﯽ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﺋﺮِ_ﻻﮨﻮﺗﯽ، ﻣﯿﮟ ﺟﻮﮨﺮِ_ﻣﻠﮑﻮﺗﯽ ﻧﺎﺳﻮﺗﯽ ﻧﮯ ﮐﺐ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ____ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺯ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮏِ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﮨﻮﮞ____ﻣﯿﮟ ﮔﻮﮨﺮِ ﯾﮑﺪﺍﻧﮧ ﮐﺲ ﯾﺎﺩ ﮐﺎ ﺻﺤﺮﺍ ﮨﻮﮞ، ﮐﺲ ﭼﺸﻢ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﻮﺩ ﻃُﻮﺭ ﮐﺎ ﺟﻠﻮﮦ ﮨﻮﮞ____ﮨﮯ ﺷﮑﻞ ﮐﻠﯿﻤﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺷﻤﻊِ ﻓﺮﻭﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺶِ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺯﺵِ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﮨﻮﮞ_____ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺰﻝِ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺣُﺴﻦِ ﻣﺠﺴّﻢ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘُﮭﻮﻝ ﮨﻮﮞ ﺷﺒﻨﻢ ﮨﻮﮞ_____ﻣﯿﮟ ﺟﻠﻮﮦٔ ﺟﺎﻧﺎﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺻﻒِ ﺑﺴﻤﻞ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻧﻖِ ﻣﺤﻔﻞ ﮨﻮﮞ ﺍﮎ ﭨﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻝ ﮨﻮﮞ____ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺮﺍﻧﮧ

اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار

اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار کس طرح کاٹے کوئی لیل و نہار انتظار ان کی الفت کا یقیں ہو ان کے آنے کی امید ہوں یہ دونوں صورتیں تو ہے بہار انتظار جان و دل کا حال کیا کہیے فراق یار میں جان مجروح الم ہے ، دل فگار انتظار میری آہیں نارسا ، میری دعائیں نا قبول یا الہی کیا کروں میں شرمسار انتظار آن کے خط کی آرزو ہے ، ان کا آمد کا خیال کس قدر پھیلا ہوا ہے کاروبار انتظار ہے دل مسرور حسرت اک طرب زار امید پھونک ڈالے گر نہ اس گلشن کو نار انتظار

کہیں ہوتا تھا وہ اور میں کہیں ہوتا تھا

کہیں ہوتا تھا وہ اور میں کہیں ہوتا تھا وہ مُجھ کو اور بہتر چاہتا تھا یہ اُس کی اُلفتیں تھیں ، نکتہ چیں تھا تمہارے لاکھ گنوانے سے حاصل جسے ہم جانتے ہیں اک حسیں تھا ہمارے فاصلے ، الله توبہ وہ مُجھ میں اور میں اُس میں جا گُزیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی تم تھے ، لِپٹ جاتے تھے ہم سے یہی تم ہو کہ رہتے ہو کِھنچے سے یہ کَڑوا سچ ، تُجھے ہم کُھو چُکے ہیں اُترتا ہی نہیں ، اپنے گلے سے جُو اب پَلٹے تُو منہ لٹکا ہوا ہے گئے تو تھے ، بڑے ہی تَنتَنے سے اُسے بپتا سُنا آئے ہیں اپنی مگر اُمِّد کیا ، چِکنے گَھڑے سے

”جلے تو ، جلاؤ گوری“

”جلے تو ، جلاؤ گوری“ جلے تو جلاؤ گوری ، پريت کا الاؤ گوری ابھی نہ بُجھاؤ گوری ، ابھی سے بُجھاؤ نا پريت ميں جوگ بھی ھے ، کامنا کا سوگ بھی ھے پريت بُرا روگ بھی ھے ، لگے تو لگاؤ نا گيسوؤں کا ناگنوں سے ، بيرنوں ابھاگنوں سے جوگنوں بیراگنوں سے ، کھيلتی ھی جاؤ نا عاشقوں کا حال پوچھو، کرو تو خيال پوچھو ايک دو سوال پوچھو ، بات جو بڑھاؤ نا رات کو اُداس ديکھيں ، چاند کو نِراش ديکھيں تُمہيں جو نہ پاس ديکھيں ، آؤ پاس آؤ نا روپ رنگ مان دے ديں ، جی کا مکان دے ديں کہو تُمہيں جان دے ديں ، مانگ لو ، لجاؤ نا اور بھی ھزار ھوں گے ، جو کہ دعويدار ھوں گے آپ پہ نثار ھوں گے ، کبھی آزماؤ نا۔ ”ابنِ انشاء“.

اک بار کہو تم میری ہو

اک بار کہو تم میری ہو  ہم گُھوم چکے بَستی بَن میں اِک آس کی پھانس لیے مَن میں کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو جب جیون رات اندھیری ہو اِک بار کہو تم میری ہو جب ساون بادل چھائے ہوں جب پھاگن پُول کِھلائے ہوں جب چندا رُوپ لُٹا تا ہو جب سُورج دُھوپ نہا تا ہو یا شام نے بستی گھیری ہو اِک بار کہو تم میری ہو ہاں دل کا دامن پھیلا ہے کیوں گوری کا دل مَیلا ہے ہم کب تک پیت کے دھوکے میں تم کب تک دُور جھروکے میں کب دید سے دل کو سیری ہو اک بار کہو تم میری ہو کیا جھگڑا سُود خسارے کا یہ کاج نہیں بنجارے کا سب سونا رُوپ لے جائے سب دُنیا، دُنیا لے جائے تم ایک مجھے بہتیری ہو اک بار کہو تم میری ہو.! (ابن انشا)

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے

ہجر کرتے یا کوئی وصل گزارا کرتے ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظارا کرتے ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارا کرتے جب ہے یہ خانہ ء دل آپکی خلوت کے لئے پھر کوئی آئے یہاں ، کیسے گوارا کرتے کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا آنکھ میں خواب تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے (عبید اللہ علیم)

باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے

باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے سوچتا رہتا ہوں تنہائ میں انجام خلوص پھر اسی جرم محبت کو دوبارہ کر کے جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیاں میں نے اپنے ہر عشق کو پلکوں پہ ستارا کر کے دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا اور کچھ روذ تیرے ساتھ گزارا کر کے ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں دیکھتے ہیں ساجد یہ اذیت بھی گوارا کر کے

پہلی روایتوں سے کنارا کروں گا میں

پہلی روایتوں سے کنارا کروں گا میں دریا کو دشت، دشت کو دریا کروں گا میں دل کی اتھل پتھل کو بکھیروں گا چار سُو ترتیبِ کائنات کو الٹا کروں گا میں میرے لہو میں دوڑ رہا ہے حلال رزق مت سوچ کہ ضمیر کا سودا کروں گا میں پھر یوں ہوا کہ ساری ہوا مجھ پہ پل پڑی میں نے فقط کہا تھا ، اجالا کروں گا میں سینے سے اٹھتی ہوک کا گھونٹوں گا میں گلہ اس تن بدن سے یاد کو چلتا کروں گا میں میں نے سہی سواد تمنا کی وحشتیں اے خواب زار ! تجھ پہ بھروسہ کروں گا میں؟ اب اوڑھ لی ہے میرے بدن نے قبائے شام اے دن کی تیز دھوپ ترا کیا کروں گا میں

Dekhei 1 karwa sach

ہت اعلٰی انتخاب

شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی کا آپ بے بہرا ہے جو معتقد میر نہیں ( امام بخش ناسخ ) سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ھی لکھ ھونا ہے تجھ کو میر سے استاد کی طرف ( مرزا سودا ) ریختے کے تمھی استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کویی میر بھی تھا ( مرزا غالب ) حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہوں شاگرد میرزا کا، مقلد ہوں میر کا ( الطاف حسین حالی ) شعر میرے بھی پر درد و لیکن حسرت میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لاوں ( حسرت موھانی ) نہ ہوا پر نہ ھوا میر کا انداز نصیب ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا ( استاد ابراہیم ذوق ) میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاوں اکبر ناسخ و ذوق بھی جب چل نہ سکے میر کے ساتھ ( اکبر الہ آبادی ) اک بات کہیں گے انشا جی تمھہیں ریختہ کہتے عمر ہویی تم ایک جہاں کا علم پڑھے کویی میر سا شعر کہا تم نے ( ابن انشا ) مستند ہے میرا فرمایا ہوا ایک عالم پر ہوں میں چھایا ہوا ( میر تقی میر ) گئی عمر دربند فکرِ غزل سو اس فن کو ایسا برا کر چلے کہیں کیا جو

ہم سے تو مرغا ہی اچها تها "

ہم سے تو مرغا ہی اچها تها " کہتے ہیں کسی جگہ ایک مرغا روزانہ فجر کے وقت اذان دیا کرتا تھا. ایک دن مرغے کے مالک نے اسے پکڑ کر کہا: آج کے بعد اگر تو نے پھر کبھی اذان دی تو میں نے تیرے سارے پر وغیرہ اکھاڑ لینے ہیں. مرغے نے سوچا کہ ضرورت پڑ جائے تو پسپائی میں بھی حرج نہیں ہوا کرتا اور پھر شرعی سیاست بھی تو یہی ہے کہ اگر جان بچانے کیلئے اذان دینا موقوف کرنا پڑ رہا ہے تو جان بچانا مقدم ہے. اور پھر میرے علاوہ بھی تو کئی اور مرغے ہیں جو ہر حال میں اذان دے رہے ہیں، میرے ایک کے اذان نا دینے سے کیا فرق پڑے گا. اور مرغے نے اذان دینا بند کردی. ہفتے بھر کے بعد مرغے کے مالک نے ایک بار پھر مرغے کو پکڑ کر کہا کہ آج سے تو نے دوسری مرغیوں کی طرح کٹکٹانا ہے، نہیں تو میں نے تیرے پر بھی نوچ لینے ہیں اور تجھے مارنا بھی ہے. اور مرتا کیا نا کرتا، مرغے نے اپنی وضعداری کو پس پشت ڈالا اور مرغیوں کی طرح کٹکٹانا بھی شروع کردیا. مہینے بھر کے بعد مرغے کے مالک نے مرغے کو پکڑ کر کہا اگر تم نے کل سے دوسری مرغیوں کی طرح انڈہ دینا شروع نا کیا تو میں نے تجھے چھری پھیر دینی ہے. اس بار مرغا رو پڑا اور روتے ہ

ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮬﮯ

ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮬﮯ ﺍﺑﻮﻇﮩﺒﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺩﻭﺳﺖ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ، ﺍﯾﮏ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻓﻠﭙﺎﺋﻨﯽ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﺲ ﺑﯿﺲ ﮐﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺳﻨﺎ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ۔ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺳﺰﺍ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﺩﺭﺁﻣﺪ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﻮﻣﯽ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﺗﮭﺎ۔ ﻗﺎﺿﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﺰﺍ ﺗﻮ ﻻﺯﻣﯽ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﻗﻮﻣﯽ ﺗﮩﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺁﭖ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺭﻋﺎﺋﺖ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﮯ ﮬﻮ۔  ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻓﻠﭙﺎﺋﻨﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺘﺎﻭٔ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﮌﮮ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺗﮑﯿﮧ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺗﮑﯿﮧ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﮐﻮﮌﮮ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﺋﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ﮐﻮﮌﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﮑﯿﮧ ﭘﮭﭧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﻮﮌﮮ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺳﮩﻨﮯ ﭘﮍﮮ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﮑﯿﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺗﮑﯿﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺩﯾﮟ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺗﮑﯿﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺑﯿﺲ ﮐﻮﮌﮮ ﻟﮕﺎ ﺩﺋﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﺳﺰﺍ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮬﻮﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮐﮯ۔ ﺟﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺗﻢ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﻣﺴﻠﻢ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻭ ﺭﻋﺎﺋﯿﺘﯿﮟ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﯿﮟ ﺑﻮﻟﻮ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮬﻮ۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺑ

٭سچی دوستی٭

Image
٭سچی دوستی٭ ------------- کسی گاؤں میں پانچ دوست رہا کرتے تھے، اُنکی آپس کی دوستی اتنی گہری تھی کہ جہاں جاتے ایک رنگ جما لیتے تھے۔ ایک بار یہ سبھی دوست شہر کسی کام سے گئے وہاں انہیں ایک ہوٹل میں کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ کھانا وہ خوب مزے لے لے کر کھا رہے تھے۔ وہاں موجود سبھی گاہک اُنکی خوش گپییوں اور قہقوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ کہانی میں جذباتی صورتحال تب بنی جب بل دینے کا وقت آیا۔ اُن میں سے ہر دوست کہہ رہا تھا، "خبردار کوئی بل نہ دے، بل میں دونگا۔۔۔!" اُن سب کا یوں اپنے آپ کو بل دینے کیلئے پیش کرنا، وہاں موجود لوگوں کو بھی جذباتی کر گیا۔ کچھ تو اندر ہی اندر اُنکی اِس پیار بھری تکرار سے یوں لطف اندوز ہو رہے تھے، جیسے یہ حقیقت نہ ہو بلکہ کسی رومانٹک فلم کا سین ہو۔ آخر ہوٹل کے مینجر نے باقی لوگوں کی رضامندی سے ایک تجویز اُن سب دوستوں کے سامنے رکھی کہ، "میں سیٹی بجاؤں گا، تم سبھی دوست بھاگ کر ہوٹل کے مین گیٹ کو ہاتھ لگاؤ گے، چنانچہ تم میں سے جو پہلے ہاتھ لگا لے گا، وہی بل دے گا۔۔۔!" یہ لمحات اتنے سسپنس سے بھرے ہوئے تھے کہ لوگ اپنا اپنا کھانا چ

is charsi k bare kya khyal hai dosto????

ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮯ ﺟﻨﺎﮞ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﻣﯿﺎﮞ

ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﮯ ﺟﻨﺎﮞ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﻣﯿﺎﮞ ﺭﺍﺗﺎﮞ ﮐﺮﻥ ﮔﺰﺍﺭ ﺍُﻭﮦ ﮐُﻮﮎ ﻣﯿﺎﮞ ﺳﺮ ﺳﺒﺰ ﺍﮮ ﺑﺎﻍ ﻣﺤﺒﺘﺎﮞ ﺩﺍ ﺳﭙﻨﯽ ﮨﺠﺮ ﺩﯼ ﭘﮭﺮﺩﯼ ﺳُﻮﮎ ﻣﯿﺎﮞ ﺳُﮑﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﻼﺑﺎﮞ ﻧﺎﻝ ﺑﮭﺮ ﺩﮮ ﺩﻝ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﺍ ﺧﺎﻟﯽ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﻣﯿﺎﮞ !!.. ﺧﻮﺍﺏ ﻋﺸﻖ ﺩﮮ ﻟُﮑﺎ ﻧﺠﻮﻣﯿﺎﮞ ﺗﻮﮞ ﭨُﭧ ﺟﺎﻧﺪﮮ ﻧﮯ ﮨﻮﻧﺪﮮ ﻣﻠﻮﮎ ﻣﯿﺎﮞ !!.. ﻣﯿﮟ ﺭﻭﯾﺎ ﺑﮧ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﻼﮞ ﻭﭺ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﻮﺋﻞ ﻧﮯ ﺳﻨﮏ ﮨُﻮﮎ ﻣﯿﺎﮞ !!.. ﺗﯿﻠﯽ ﺷﮏ ﺩﯼ ﺟﯿﮑﺮ ﺟﮓ ﺟﺎﻭﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑُﺠﮭﺪﯼ ﻣﺎﺭﯾﺎﮞ ﭘُﮭﻮﮎ ﻣﯿﺎﮞ !!.. ﻧﮩﺎﻝؔ ﮐﮭﯿﮉ ﮐﮯ ﮐﮭﯿﮉﺍﮞ ﺳﺎﮈﮮ ﻧﺎﻝ ﭘﮭﮍ ﺑﮧ ﮔﺌﮯ ﮨﺠﺮ ﺩﯼ ﺑﻨﺪﻭﻕ ﻣﯿﺎﮞ..

kya zabardast tokri hai jo mukhtli ashkaal apnaa sakti hai zroor dekhein

INDIAN COLLEGE PARTY SEXY DANCE ON PUNJABI SONG - NickTube - High speed video experience with HD Quality

Fun dekhein is bandey ka fantastic

بدقسمتی سے ہماری نئی نسل نے ضیاءالحق کو کبھی نہیں سنا. تمام لبرل اور سیکولر لوگ جنرل ضیاء سے نفرت کرتے ہیں. اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد بتائیے کہ کیا کوئی لیڈر اس اعتماد، شعور اور منطقی انداز سے بات کر سکتا ہے؟ مرد مومن مرد حق ۔ ضیاء الحق ضیاء الحق

Talent of Pakistan Ya Nabi Nazr e Karam Farmana

Watch how a Faisalabadian says truth about hum aik hain

وہ لڑکی شاید پاگل تھی

وہ لڑکی شاید پاگل تھی کیا صبر تھا اس دیوانی کا کیا ضبط محبت کرتی تھی آنکھوں میں نیم نشہ سا تھا باتوں سے دیوانی لگتی تھی ہمراز نہ تھا اس کا کوئی بس رب سے باتیں کرتی تھی دن رات ہی گم صم رہتی تھی کچھ شرم وحیا کا پیکر تھی کچھ نرم مزاج وہ دکھتی تھی اک شام کے آنچل میں اکثر جذبات چھپائے رکھتی تھی ڈرتی تھی جدا ہونے سے یا پیار سے شاید ڈرتی تھی ہے رشک مجھے اس پاگل پہ کیا خوب محبت کرتی تھی ہمراز نہ تھا اس کا کوئی بس رب سے باتیں کرتی تھی۔۔۔

ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﮨﯽ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﻼ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ؟

ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﮧ ﮨﯽ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﻼ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﺍﺷﮏ ﮔﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ ﻧﮧ ﻣﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﻮ ﻋﺠﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗُﻮ ﺍﮔﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﻣﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﻣﻮﺕ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺗﻮ ﻗﻠﻢ ﺗﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻟﮑﻨﺖ ﭘﮧ ﺗﺮﺱ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺗﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻣﺼﻮﺭ ﮨﻮ ﺍُﺩﮬﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺑﺘﻼﺅ ﺫﺭﺍ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ؟ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﺘﻼﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺷﺮﻡ ﺑﮩﺖ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﮯ ﺟﻮ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ

Hai koi Allah k siwa aesi Takhleeq karne wala?????????

Image

Danday ka Zor

Arabi Doctor

See how a pakistani woman stolen the currency... Amazing video

RAQS