Posts

Showing posts from March 25, 2014
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا قافلے میں صبح کے اک شور ہے یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں تخم خواہش دل تو بوتا ہے کیا یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
فقیرانہ آئے صدا کرچلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اُس عہد کو اب وفا کر چلے شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی کہ مقدور تک تو دوا کر چلے وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے ہر اک چیز سے دل اُٹھا کر چلے کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ سو تم ہم سے منھ بھی چُھپا کر چلے بہت آرزو تھی گلی کی تری سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی حقِ بندگی ہم ادا کر چلے پرستش کی یاں تک کہ اے بُت تجھے نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے نہ دیکھا غمِ دوستاں شکر ہے ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے گئی عمر در بندِ فکرِ غزل سو اس فن کو ایسا بُرا کر چلے کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے! م
ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز اُسی خانہ خراب کی سی ہے میر اُن نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے

Mir Taqi Mir

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے جان کے دینے کو جگر چاہئے قابلِ آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں واقعہ اک شام و سحر چاہئے حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے اٹھتے پلک، ایک پہر چاہئے کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے جیسے جرس، پارہ گلو کیا کروں نالہ و فغاں میں اثر چاہئے خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر ہم کو جیا بارِ دگر چاہئے م

Mir Taqi Mir

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق معشوق، عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق عشق ہے طرز و طور، عشق کے تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق کون مقصد کو عشق بن پہنچا آرزو عشق و مدّعا ہے عشق کوئی خواہاں نہیں محبت کا تو کہے جنسِ ناروا ہے عشق تو نہ ہووے تو نظمِ کُل اٹھ جائے سچے ہیں شاعراں خدا ہے عشق میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟ م

Mir Taqi Mir

ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے سودائی و رسوا و شکستہ دل و خستہ اب لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے دیکھے سے کہے کوئی نہیں جرم کسو کا کہتے ہیں بجا لوگ بھی بیجا نہ کہیں گے ہوں دربدر و خاک بسر، چاک گریبان اسطور سے کیونکر مجھے رسوا نہ کہیں گے ویرانی کی مدت کی کوئی کیا کرے تعمیر اجڑی ہوئی آبادی کو ویرانہ کہیں گے میں رویا کڑھا کرتا ہوں دن رات جو درویش من بعد مرے تکیہ کو غم خانہ کہیں گے موقوف غم میر کہ شب ہو چکی ہمدم کل رات کو پہر باقی یہ افسانہ کہیں گے

Mir Taqi Mir

مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں کیا کریے یاں نہیں ہے جنسِ وفا کی خواہش خونِ جگر ہی کھانا آغازِ عشق میں ہے رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش وہ شوخ دشمنِ جاں، اے دل تُو اس کا خواہاں کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میر اونچا رکھتا ہے اہلِ دل سے ہر یک دعا کی خواہش

Mir Taqi Mir

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی خاطرِ بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی سر گذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو شہر دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار کیا عوض چاہ کا تھا خصمیِ جانی اس کی آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی

Mir Taqi Mir

موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے کیا سمجھے ، اُس کے رتبۂ عالی کو اہلِ خاک پھرتے ہیں جوں سپہر بہت ہم ورے ورے مرتا تھا میں تو ، باز رکھا مرنے سے مجھے یہ کہہ کے ، کوئی ایسا کرے ہے ارے ارے گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گُل سے میر بلبل پکاری دیکھ کے ، صاحب پرے پرے

Mir Taqi Mir

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بے تاب کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کے نکلا دل کی آبادی کی اس حد ھے خرابی کہ نہ پوچھ جانا جاتا ھے کہ اس راہ سے لشکر نکلا اشک تر قطرہ خوں لخت جگر پارہ دل ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہتر نکلا ہم نے جانا تھا لکھے گا کوئی حرف اے میر پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

Mir Taqi Mir

کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر کیا کیا رکھیں ہیں اس کے امیدوار خواہش غیرت سے دوستی کی کس کس سے ہو جے دشمن رکھتا ہے یار ہی کی سارا دیار خواہش ہم مہرورز کیونکر خالی ہوں آرزو سے شیوہ یہی تمنّا فن و شعار خواہش اٹھتی ہے موج ہر اک آغوش ہی کی صورت دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش صد رنگ جلوہ گر ہے ہر جا وہ غیرتِ گل عاشق کی ایک پاوے کیونکر قرار خواہش کرتے ہیں سب تمنا پر میر جی نہ اتنی رکھےگی مار تم کو پایانِ کار خواہش

Mir Taqi Mir

آرزوئیں ہزار رکھتے ہیں تو بھی ہم دل کو مار رکھتے ہیں برق کم حوصلہ ہے ہم بھی تو دلکِ بے قرار رکھتے ہیں غیر ہی موردِ عنایت ہے ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں نہ نگہ نےَ پیام، نَے وعدہ نام کو ہم بھی یار رکھتے ہیں ہم سے خوش زمزمہ کہاں، یوں تو لب ولہجہ ہزار رکھتے ہیں چوٹٹے دل کے ہیں بُتاں مشہور بس یہی اعتبار رکھتے ہیں پھر بھی کرتے ہیں میر صاحب عشق ہیں جواں اختیار رکھتے ہیں م

Mir Taqi Mir

کیا میں بھی پریشانیِ خاطر سے قریں تھا آنکھیں تو کہیں تھیں دلِ غم دیدہ کہیں تھا کس رات نظر کی ہے سوۓ چشمکِ انجم آنکھوں کے تلے اپنے تو وہ ماہ جبیں تھا آیا تو سہی وہ کوئی دم کے لیے لیکن ہونٹھوں پہ مرے جب نفسِ باز پسیں تھا اب کوفت سے ہجراں کی جہاں تن پہ رکھا ہاتھ جو درد و الم تھا سو کہے تو کہ وہیں تھا جانا نہیں کچھ جز غزل آ کر کے جہاں میں کل میرے تصرّف میں یہی قطعہ زمیں تھا نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انہوں کا جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیرِ نگیں تھا مسجد میں امام آج ہوا آ کے وہاں سے کل تک تو یہی میر خرابات نشیں تھا

Mir Taqi Mir

ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ تم اور ہم سے محبت تمہیں خلاف خلاف ہم اور اُلفتِ خوبِ دگر دروغ دروغ غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے شبِ فراق کو کب ہے سَحردروغ دروغ کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو میرسے تُو وہ اور اُس کو کسو پر نظر دروغ دروغ م

Mir Taqi Mir

ہم اور تیری گلی سے سفر دروغ دروغ کہاں دماغ ہمیں اس قدر دروغ دروغ تم اور ہم سے محبت تمہیں خلاف خلاف ہم اور اُلفتِ خوبِ دگر دروغ دروغ غلط غلط کہ رہیں تم سے ہم تنک غافل تم اور پوچھو ہماری خبر دروغ دروغ فروغ کچھ نہیں دعوے کو صبحِ صادق کے شبِ فراق کو کب ہے سَحردروغ دروغ کسو کے کہنے سے مت بدگماں ہو میرسے تُو وہ اور اُس کو کسو پر نظر دروغ دروغ م

Mir Taqi Mir

لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے سوبار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے چھاتی کہ جلنے کی ہے شاید کہ آگ سلگے اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے نکلا سو سب چلا ہے نومید ہی چلا ہے اپنا نہالِ خواہش برگ و گل و ثمر سے جھڑ باندھنے کا ہم بھی دینگے دکھا تماشا ٹک ابر قبلہ آ کر آگے ہماری بر سے سو نامہ بر کبوتر کر ذبح اُن نے کھائے خط چاک اڑے پھرے ہیں اس کی گلی میں پر سے آخر گرسنہ چشمِ نظارہ ہو گئے ہم ٹک دیکھنے کو اسکی برسوں مہینوں ترسے اپنا وصول مطلب اور ہی کسو سے ہو گا منزل پہونچ رہیں گے ہم ایسی رہ گزر سے سردے دے مارتے ہیں ہجراں میں میر صاحب یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے دردِ سر سے م

Mir Taqi Mir

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا شکر خدا کہ حقِ محبـت ادا ہوا قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا حیراں رنگِ باغ جہاں تھا بہت رُکا تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا ! عالم کی بے فضائی سے تنگ آگئے تھے ہم جاگہ سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا ! در پے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے انجام کار مدعی کا مدعا ہوا اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھئے جیسے کوئی کسو کا نگر ہو لٹا ہوا بدتر ہے زیست مرگ سے ہجرانِ یار میں بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا کہتا تھا میر حال تو جب تک تو تھا بھلا کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا

Mir Taqi Mir

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا ہر زخمِ جگر داورِ محشر سے ہمارا انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا صد موسمِ گُل ہم کو تہِ بال ہی گزرے مقدور نہ دیکھا کبھی بے بال و پری کا اس رنگ سے چمکے ہے پلک پر کہ کہے تو ٹکرا ہے ترا اشک، عقیقِ جگری کا ل ے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا ٹک میر جگرِ سوختہ کی جلد خبر لے کیا یار بھروسہ ہے چراغِ سحری کا

Mir Taqi Mir

تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد ہرطرف ہیں اسیر ہم آواز باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے اپنی قیدِ حیات سے آزاد ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد نقش صورت پذیر نہیں اس کا یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد خوب ہے خاک سے بزرگاں کی چاہنا تو مرے تئیں امداد پر مروّت کہاں اسے اے میر تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد نامرادی ہو جس پہ پروانہ وہ جلاتا پھرے چراغِ مراد م

Mir Taqi Mir

میرے سنگِ مزار پر فرہاد رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد؟ خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد سنتے ہو، ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم خاک کس دل جلے کی کی برباد بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد

Mir Taqi Mir

الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مئے خانے میں جُبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا ساعدِ سمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے بُھولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا ایسے آہو
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں! کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے! میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل پر ، آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا وہ پیاری پیاری صورت ، وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں! کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں ساتھی تو ہیں وطن میں ، میں قید میں پڑا ہوں آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں اس قید کا الہی! دکھڑا کسے سناؤں ڈر ہے یہیں قفسں میں میں غم سے مر نہ جاؤں جب سے چمن چھٹا ہے ، یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے آزاد مجھ کو کر دے ، او قید کرنے والے! میں بے زباں ہوں قیدی ، تو چھوڑ کر دعا لے
مضطرب رکھتا ہے میرا دل بے تاب مجھے عین ہستی ہے تڑپ صورت سیماب مجھے موج ہے نام مرا ، بحر ہے پایاب مجھے ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گرداب مجھے آب میں مثل ہوا جاتا ہے توسن میرا خار ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے کیوں تڑپتی ہوں ، یہ پوچھے کوئی میرے دل سے زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں وسعت بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے بھلایا قصۂ پیمان اولیں میں نے لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے سنایا ہند میں آ
گلزار ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ آیا ہے تو جہاں میں مثال شرار دیکھ دم دے نہ جائے ہستی ناپائدار دیکھ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ کھولی ہیں ذوق دید نے آنکھیں تری اگر ہر رہ گزر میں نقش کف پائے یار دیکھ ع
انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں جو تھے چھالوں میں کانٹے ، نوک سوزن سے نکالے ہیں پھلا پھولا رہے یا رب! چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی نرالا عشق ہے میرا ، نرالے میرے نالے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے ٹھہر جا اے شرر ، ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں مرے اشعار اے اقبال کیوں پیارے نہ ہوں مجھ کو مرے ٹوٹے ہوئے دل کے یہ درد انگیز نالے ہیں
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں حقیقت اپنی آنکھوں پر نمایاں جب ہوئی اپنی مکاں نکلا ہمارے خانۂ دل کے مکینوں میں اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائی سے تو سنگ آستانِ کعبہ جا ملتا جبینوں میں کبھی اپنا بھی نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں کہ لیلی کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشینوں میں مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں چھپایا حسن کو اپنے کلیم اللہ سے جس نے وہی ناز آفریں ہے جلوہ پیرا نازنینوں میں جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الہی! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو وہ رونق انجمن کی ہے انھی خلوت گزینوں میں کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں می
ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں تہي ، زندگي سے نہيں يہ فضائيں يہاں سينکڑوں کارواں اور بھي ہيں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھي آشياں اور بھي ہيں اگر کھو گيا اک نشيمن تو کيا غم مقامات آہ و فغاں اور بھي ہيں تو شاہيں ہے ، پرواز ہے کام تيرا ترے سامنے آسماں اور بھي ہيں اسي روز و شب ميں الجھ کر نہ رہ جا کہ تيرے زمان و مکاں اور بھي ہيں گئے دن کہ تنہا تھا ميں انجمن ميں يہاں اب مرے رازداں اور بھي ہيں
سختیاں کرتا ہوں دل پر ، غیر سے غافل ہوں میں ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں ، جاہل ہوں میں میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست وائے محرومی! خزف چین لب ساحل ہوں میں ہے مری ذلت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل جس کی غفلت کو ملک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں بزم ہستی! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو تو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر ، آپ ہی منزل ہوں میں ع
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایۂ جبریلِ امیں بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن‘ نہ بخارا نہ بدخشان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے‘ حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان‘ قیامت میں بھی میزان جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کا سرود ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمٰن بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں ہوں زمیں پر ، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثل خضر خجستہ پا ہوں میں ہوں مفسر کتاب ہستی کی مظہر شان کبریا ہوں میں بوند اک خون کی ہے تو لیکن غیرت لعل بے بہا ہوں میں دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ ، کیا ہوں میں راز ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تو خدا جو ، خدا نما ہوں میں علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں شمع تو محفل صداقت کی حسن کی بزم کا دیا ہوں میں تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائر سدرہ آشنا ہوں میں کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش رب جلیل کا ہوں میں
نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی تمھارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی! تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی کھنچے خود بخود جانب طور موسی کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی! کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے آنکھ مل جاتی ہے ہفتاد و دو ملت سے تری ایک پیمانہ ترا سارے زمانے کے لیے دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے پاس تھا ناکامی صیاد کا اے ہم صفیر ورنہ میں ، اور اڑ کے آتا ایک دانے کے لیے! اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کا گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ! خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے مری نگاہ میں وہ رند ہی نہیں ساقی جو ہوشیاری و مستی میں امتیاز کرے مدام گوش بہ دل رہ ، یہ ساز ہے ایسا جو ہو شکستہ تو پیدا نوائے راز کرے کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے سخن میں سوز ، الہی کہاں سے آتا ہے یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے تمیز لالہ و گل سے ہے نالۂ بلبل جہاں میں وانہ کوئی چشم امتیاز کرے غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے ع
یا رب دِل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے پھر وادئ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے محرومِ تماشا کو پھر دیدہء بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلادے بھٹکے ہوئے آہو کو، پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو، پھر وسعتِ صحرا دے پیدا دِل ویراں میں، پھر شورشِ محشر کر اس محملِ خالی کو، پھر شاھدِ لیلا دے اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو وہ داغ محبت دے، جو چاند کو شرما دے رفعت میں مقاصد کو ہمدوشِ ثریّا کر خوددارئ ساحل دے، آزادی دریا دے بے لوث محبت ہو، بیباک صداقت ہو سینوں میں اجالا کر، دل صورتِ مینا دے احساس عنایت کر آ ثارِ مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشہء فردا دے میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے ع
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں حسن قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو ع
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا اور اسیر حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا مرغ دل دام تمنا سے رہا کیونکر ہوا دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا حسن کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب وہ جو تھا پردوں میں پنہاں ، خود نما کیونکر ہوا موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے درد فراق! چارہ گر دیوانہ ہے ، میں لا دوا کیونکر ہوا تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا پرسش اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ ، کیا ہوا ، کیونکر ہوا میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا ع
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر بیگانہ شے پہ نازش بے جا بھی چھوڑ دے لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق بسمل نہیں ہے تو تو تڑپنا بھی چھوڑ دے شبنم کی طرح پھولوں پہ رو ، اور چمن سے چل اس باغ میں قیام کا سودا بھی چھوڑ دے ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا بت خانہ بھی ، حرم بھی ، کلیسا بھی چھوڑ دے سوداگری نہیں ، یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے شوخی سی ہے سوال مکرر میں اے کلیم! شرط رضا یہ ہے کہ تقاضا بھی چھوڑ دے واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل چراغ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہوں
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ يہ دور اپنے براہيم کی تلاش ميں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ کيا ہے تو نے متاع غرور کا سودا فريب سود و زياں ، لا الہ الا اللہ يہ مال و دولت دنيا، يہ رشتہ و پيوند بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ يہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہيں پابند بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ اگرچہ بت ہيں جماعت کي آستينوں ميں مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ يہ دور اپنے براہيم کی تلاش ميں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ کيا ہے تو نے متاع غرور کا سودا فريب سود و زياں ، لا الہ الا اللہ يہ مال و دولت دنيا، يہ رشتہ و پيوند بتان وہم و گماں، لا الہ الا اللہ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ يہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہيں پابند بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ اگرچہ بت ہيں جماعت کي آستينوں ميں مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرتِ مُلا کو مِلا حُکمِ بہشت عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لبِ کشت نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت ہے بدآموزیء اقوام و مِلل کام اس کا اور جنت میں نہ مسجد، نہ کلیسا، نہ کُنِشت
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضروموجود سے بیزار کرے موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے فتنہء ملتِ بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی منصور کو ہوا لب گویا پیام موت اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی میں انتہائے عشق ہوں تو انتہائے حسن دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں پھر اور کس طرح انہیں دیکھا کرے کوئی اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی نظارے کو بہ جنبش مژگاں بھی بار ہے نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی کھل جائیں کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی علامہ اقبال
کریں چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا مُنہ اے شبِ ہجر تیرا کالا مُنہ بات پوری بھی مُنہ سے نکلی نہیں آپ نے گالیوں پہ کھولا مُنہ شبِ غم کا بیان کیا کیجئے ہے بڑی بات اور چھوٹا مُنہ جب کہا یار سے دکھا صورت ہنس کے بولا کہ دیکھو اپنا مُنہ پھر گئی آنکھ مثلِ قبلہ نما جس طرف اُس صنم نے پھیرا مُنہ سنگ اسود نہیں ہے چشمِ بتاں بوسہ مومن طلب کرے کیا مُنہ مومن خان مومن
یہاں قہر ہے موت ہے قضا ہے عشق سچ تو يہ ہے بري بلا ہے عشق اثر غم ذرا بتا دينا وہ بہت پوچھتے ہيں کيا ہے عشق آفت جاں ہے کوئي پردہ نشيں مرے دل ميں آ چھپا ہے عشق کس ملاحت سرشت کو چاہا تلخ کامي پہ با مزا ہے عشق ہم کو ترجيح تم پہ ہے يعني دل رہا حسن و جاں رہا عشق ديکھ حالت مري کہيں کافر نام دوزخ کا کيوں دھرا ہے عشق دیکھئے کس جگہ ڈبو دے گا ميري کشتي کا نا خدا ہے عشق آپ مجھ سے نباہيں گے سچ ہے با وفا حسن بے وفا ہے عشق قيس و فرہاد وامق و مومن مر گئے سب ہي کيا وبا ہے عشق افتخار عارف
یہاں اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج، راحت فزا نہیں ہوتا تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا اس نے کیا جانے، کیا کیا لے کر دل کسی کام کا نہیں ہوتا نا رسائی سے دم رکے تو رکے میں کسی سے خفا نہیں ہوتا تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا رحم کر، خصمِ جانِ غیر نہ ہو سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا چارہء دل سوائے صبر نہیں سو تمھارے سوا نہیں ہوتا کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن صنم آخر خدا نہیں ہوتا مومن خان مومن

Momin Khan Momin

یہاں وہ جو ہم میں تُم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نِباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مِرے حال پر مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ نئے گِلے، شکائتیں، وہ مزے مزے کی حکائتیں وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو وہ بیان شوق کا بَرملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم کو تُم سے بھی راہ تھی کبھی ہم بھی تم تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو سُنو ذکر ہے کئی سال کا، کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا سو نباہنے کا تو ذِکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا وہ نہیں نہیں کہ ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا میں وہی ہوں مومن مُبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

Allama Iqbal Muhammad Iqbal

Allama Iqbal Muhammad Iqbal (November 9, 1877 – April 21, 1938), also known as Allama Iqbal is one of the greatest poet of all times.He is considered having inspired the Pakistan moment,he is also taken as "the nation poet of pakistan".One of the most important figure in urdu litratures and persian litrature as well.Also recongnised as "The poet of the East" His famous books includes *.Asrar e Khudi *.Zabur-i-Ajam *.Zarb e kaleem *.Rumuz e bekhudi *.Payam e Mashriq *.Javid Nama *.Bang e Dara *.Armughan e Hijaz *.Bal e JibrilHe wrote some books outside of poetry,including the his famous book "The Reconstruction of Religious Thought in Islam". Meer Taqi Meer Meer Taqi meer (September 1723 to 21 september 1810).His real name was "Meer Muhammad Taqi",his fathers name was "Meer Ali Taqi".One of the leading urdu poets of all times,he's got his own style of in ghazal,he is also know as "Khuda_e_sukhan".means the "God of po