Posts

Showing posts from March 28, 2014
!...Na gila hai k0i halaat se, Na shikayatein kisi ki zaat se...! !...Khud hi sary warq Juda ho rahe hain, Meri zindagi ki kitab se...!!!
اپنوں ہی کے خلاف بھڑکا دئیے گئے ہو... غیروں کی سازشوں میں بہکا دئیے گئے ہو. روٹی کے چار ٹکرے، دو گھونٹ صاف پانی... بس ان ضرورتوں میں الجھا دئیے گئے ہو. اپنے ہی گھر جلا کر،ماتم کناں ہو خود ہی... اپنے ہی خونِ دل میں نہلا دئیے گئے ہو. غیروں کا دوش کم ہے،اپنی خطا زیادہ... جو اپنے بھائیوں سے لڑوا دئیے گئے ہو. اے ساکنانِ شہر سمجھو عدو کی سازش... نفرت کی سولیوں پہ لٹکا دئیے گئے ہو.
آگ ہے، پانی ہے، مٹی ہے، ہوا ہے مُجھ میں اور پھر ماننا پڑتا ہے کہ خُدا ہے مُجھ میں اب تو لے دے کے،،،،،، وہی شخص بچا ہے مُجھ میں مُجھ کو مُجھ سے جو جُدا کر کے چُھپا ہے مُجھ میں جتنے موسم ہیں سب جیسے کہیں مل جائیں ان دنوں کیسے بتاؤں جو فضا ہے مُجھ میں آئینہ یہ تو بتاتا ہے کہ،،، میں کیا ہوں، لیکن آئینہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مُجھ میں اب تو بس،،،،،،،،، جان ہی دینے کی ہے باری میں کہاں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مُجھ میں ،؟،
بسا ہوا ہے نبی کا دیار آنکھوں میں سجائےبیٹھا ہوں اک جلوہ زار آنکھوں میں جو دن مدینےمیں گزرے ہیں اُن کا کیا کہنا رچےہوئےہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں دیارِ پاک کا ہر منظر حسین و جمیل رہےگا تابہ قضا یادگار آنکھوں میں عطا کیا جو مدینےکےباسیوں نےمجھے مہک رہا ہے ابھی تک وہ پیار آنکھوں میں دیارِ پاک کی جن کو ہوئی ہے دید نصیب میں ڈھونڈ لوں گا وہ آنکھیں ہزار آنکھوں میں سناؤں گا وہ کہانی حضور کو جا کر چھپائےبیٹھا ہوں جو اشک بار آنکھوں میں ہےاعتماد بھی اقبال کو شفاعت پر سزا کا خوف بھی ہےگناہ گار آنکھوں میں
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ۔۔۔۔۔۔کچھ نہ کہو، خاموش رہو اے لوگو خاموش رہو۔۔۔۔۔۔ ہاں اے لوگو، خاموش رہو سچ اچھا، پر اسکے جلو میں ، زہر کا اک پیالا بھی پاگل ہو؟ کیوں ناحق کو سقراط بنو، خاموش رہو حق اچھا پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو ان کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے سر آنکھوں پر، سورج ہی کو گھومنے دو، خاموش رہو مجلس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، خاموش رہو گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں، من میں کیا کیا موسم ہیں اس بگیا کے بھید نہ کھولو، سیر کرو، خاموش رہو آنکھیں موند کنارے بیٹھو، من کے رکھو بند کواڑ انشا جی لو دھاگا لو اور لب سی لو، خاموش رہو
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
kaisa lgta hai khirki sy barish ke boondain tkna apny aap ko in boondoon ke nzr krna kaisa lgta hai jb bijli zor sy khrk kr apny gusy ka izhar krti hai or jwab main badal hns kr isy mnata hai in ahsasat main jeena kaisa lgta hai bolo kaisy lgta hai barish ky sng aank machooli khailna kaisa lgta hai

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کیا

Tumhe Ek Bat Kehni Thi Ijaazat Ho To Keh Du Main?? Ye Bheega Bheega Sa Mausam, Ye Titali, Phool Aur Shabnam Chamakte Chaand Ki Baate Ye Boonde Aur Barsaate Ye Kaali Raat Kaa Aanchal Hawa Me Naachte Baadal Dharhakte Mausamo Ka Dil Mahekti Khushboowo Ka Dil Ye Sab Jitne Nazaare Hai Kaho Kis Ke Ishaare Hai Sabhi Baate Suni Tum Ne Phir Aankhe Pher Li Tum Ne Mai Tab Jaa Kar Kahi Smjha Tumhe Kuchh Bhi Nahi Smjha Mai Qissa Mukhtesar Kar Ke Zraa Nichi Nazar Kar Ke Ye Kehta Huu Abhi Tum Se "MOHBBAT Hogyi Tum Se"

Konsa andaz hai tumhari m0habat ka zara hum k0 samjha d0, %?% Marne se b r0kty h0 0r jeene b nae dety...

ﻣﺰﺍﺭِ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﻮﻥ ﻣﺪﻓﻦ ؟ ﯾﮧ ﮐﺲ ﻋﺮﻭﺳﮧ ﮐﺎ ﻣﻘﺒﺮﮦ ﮨﮯ ؟ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮐُﺘﺒﮧ, ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺨﺘﯽ ﻓﻘﻂ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﺋﯿﻨﺘﯽ ﺗﮏ ﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﻞ ﺍِﮎ ﻟﭙﭧ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍِﮎ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭨﮭﮑﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻋﺎﺷﻘﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺮ ﺧﺎﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻋﺎﺷﻘﯽ ﮐﺎ ﮐﺴﮯ ﺧﺒﺮ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﻣﺪﻓﻦ ﻓﻘﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮨﮯ ﻭﺍﺭﺙ ﮐﯽ ﮨﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺠﺎﻝ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺟﻮ ﺑﻮﻟﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ !! ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺐ ﺗﻮ ﺳِﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺐ ﺳﮯ ﺳِﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ "ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﺣُﮑﻢ ﻣﺠﺎﻭﺭﯼ ﮨﮯ" مہر جی
راہ آسان ہو گئی ہوگی جان پہچان ہو گئی ہوگی موت سے تیری درد مندوں کی مشکل آسان ہو گئی ہوگی پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی تجھ پہ قربان ہو گئی ہوگی تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا خود پریشان ہو گئی ہوگی ان سے بھی چھین لو گے یاد اپنی جن کا ایمان ہو گئی ہوگی دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ ہاں میری جان ، ہو گئی ہوگی مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں موت آسان ہو گئی ہوگی کلام : سیف الدین سیف
Peer e Kaamil بسا ہوا ہے نبی کا دیار آنکھوں میں سجائےبیٹھا ہوں اک جلوہ زار آنکھوں میں جو دن مدینےمیں گزرے ہیں اُن کا کیا کہنا رچےہوئےہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں دیارِ پاک کا ہر منظر حسین و جمیل رہےگا تابہ قضا یادگار آنکھوں میں عطا کیا جو مدینےکےباسیوں نےمجھے مہک رہا ہے ابھی تک وہ پیار آنکھوں میں دیارِ پاک کی جن کو ہوئی ہے دید نصیب میں ڈھونڈ لوں گا وہ آنکھیں ہزار آنکھوں میں سناؤں گا وہ کہانی حضور کو جا کر چھپائےبیٹھا ہوں جو اشک بار آنکھوں میں ہےاعتماد بھی اقبال کو شفاعت پر سزا کا خوف بھی ہےگناہ گار آنکھوں میں )اقبال عظیم( ** حوریہ ذیشان
ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺳﮯ ﭼﮭﻮ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﻨﺪﻝ ﮐﺮﺩﻭ, ﻣﯿﮟ ﮐﮧ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﻮﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﺩﻭ... ﻧﮧ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﮨﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻮﺵ ﺭﮨﮯ, ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﭼﺎﮨﻮ ﮐﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﮐﺮﺩﻭ… ﺗﻢ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﺭﻧﮕﻮ, ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﮐﺎﺟﻞ ﮐﺮﺩﻭ… ﺩﮬﻮﭖ ﮨﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﺮﺳﻮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ, ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺤﺮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﻝ ﮐﺮﺩﻭ… ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﮩﮏ ﺍﭨﮭﯿﮟ ﮔﮯ, ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﺍﻣﯿﺪﻭﮞ ﺑﮭﺮﺍ ﺁﻧﭽﻞ ﮐﺮﺩﻭ.. ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮩﺮ ﻟﮕﺎﻭ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ, ﺍﮎ ﻧﻈﺮ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﺠﮭﮯﮔﮭﺎﺋﻞ ﮐﺮﺩﻭ…
Urdu Novels pdf کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا کچھ نہ کہا یہ چاند ہے، کچھ نہ کہا چہرا تیرا ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کیے ہم ہنس دیئے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردا تیرا اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں محفلیں ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا کُوچے کو تیرے چھوڑ کے جوگی ہی بن جائیں مگر جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا تُو باوفا، تُو مہرباں، ہم اور تجھ سے بدگماں؟ ہم نے تو پوچھا تھا ذرا، یہ وصف کیوں ٹھہرا تیرا بے شک اسی کا دوش ہے، کہتا نہیں خاموش ہے تو آپ کر ایسی دوا، بیمار ہو اچھا تیرا ہم اور رسمِ بندگی؟ آشفتگی؟ اُفتادگی؟ احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسنِ بے پروا تیرا دو اشک جانے کِس لیے، پلکوں پہ آ کر ٹِک گئے الطاف کی بارش تیری اکرام کا دریا تیرا اے بے دریغ و بے اَماں، ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟ ہم کو تِری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا ہم پر یہ سختی کی نظر، ہم ہیں فقیرِ رہگزر رستہ کبھی روکا تیرا دامن کبھی تھاما تیرا ہاں ہاں تیری صورت حسیں، لیکن تُو اتنا بھی نہیں اس شخص کے اشعار سے شہر ہوا کیا کیا تیرا بے درد، سننی ہو تو چل، کہتا ہے کیا اچھی غزل
شائد مرے بدن کی رُسوائی چاہتا ہے دروازہ میرے گھر کا ، بینائی چاہتا ہے اوقاتِ ضبط اس کو اے چشمِ تر بتا دے یہ دل سمندروں کی گہرائی چاہتا ہے شہروں میں وہ گھٹن ہے،اس دور میں کہ انساں گمنام جنگلوں کی پُروائی چاہتا ہے کچھ زلزلے سمو کر زنجیر کی کھنک میں اِک رقصِ والہانہ سودائی چاہتا ہے کچھ اس لیے بھی اپنے چرچے ہیں شہر بھر میں اک پارسا ہماری رسوائی چاہتا ہے ہر شخص کی جبیں پر کرتے ہیں رقص تارے ہر شخص زندگی کی رعنائی چاہتا ہے اب چھوڑ ساتھ میرا اے یادِ نوجوانی اِس عمر کا مسافر تنہائی چاہتا ہے میں جب قتیل اپنا سب کُچھ لُٹا چُکا ہوں اب میرا پیار مُجھ سے دانائی چاہتا ہے
نہ سیو ھونٹ نہ خوابوں میں صدا دو ھم کو مصلحت کا یہ تقاضا ھے ، بھلا دو ھم کو جرم سقراط سے ھٹ کر نہ سزا دو ھم کو زہر رکھا ھے تو یہ آب بقا دو ھم کو بستیاں آگ میں بہہ جائیں کہ پتھر برسیں ھم اگر سوئے ھوئے ھیں جگا دو ھم کو ھم حقیقت ھیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب ؟ ہاں اگر حرف غلط ھیں تو مٹادو ھم کو خضر مشہور ھو الیاس بنے پھرتے ھو کب سے ھم گم سم ھیں ھمارا تو پتہ دو ھم کو زیست ھے اس سحرو شام سے بیزار و زبوں لالہ گل کی طرح رنگ قبا دو ھم کو شورش عشق میں ھے حسن برابر کا شریک سوچ کر جرم تمنا کی سزا دو ھم کو کلام : احسان دانش =============

Ehsan Danish

سب کو ادراکِ زیاں گِر کے سنبھلنے سے ہُوا مجھ کو احساس ترے در سے نکلنے سے ہُوا کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار حال زنداں کا یہ اک میرے نکلنے سے ہُوا کوئی رازِ دل ِ کہسار نہ کُھلنے پایا! روز اعلان تو چشموں کے اُبلنے سے ہُوا یہ مری فکر کہ آنکھوں کی خطا کہتا ہوں گرچہ زخمی مرا سر پاؤں پھسلنے سے ہُوا میں کہ معلوم مجھے اپنی حقیقت نہ مقام تُو کہ مقصود مرا روپ بدلنے سے ہُوا گُدگُدایا مجھے سورج نے تو پلکیں جھپکیں شور دریا میں مری برف پگھلنے سے ہُوا لوگ اُن کو مرے حالات بتا دیتے ہیں فائدہ خاک مجھے نام بدلنے سے ہُوا ٹھوکریں لگتی ہیں ہمسایوں کو اس کُوچے سے یہ اندھیرا تری قندیل نہ جلنے سے ہُوا اپنا سر پھوڑ، زمانے کی تباہی پہ نہ رو جو ہُوا خون کی تاثیر بدلنے سے ہُوا ہے تری ذات سے مشتق مرے لوہے کا مزاج میں تو کندن ہی تری آگ میں جلنے سے ہُوا میرے قدموں سے تعارف نہیں کرتی راہیں یہ خسارہ بھی مرے ساتھ نہ چلنے سے ہُوا میں تھا ڈُوبا ہُوا دہکی ہُوئی تاریکی میں میرا آغازِ سفر چاند نکلنے سے ہُوا آنا جانا بھی غنیمت ہے وہاں اے دانش میں جو بیمار ہُوا گھر میں ٹہلنے سے ہُوا

Ehsan Danish

سب کو ادراکِ زیاں گِر کے سنبھلنے سے ہُوا مجھ کو احساس ترے در سے نکلنے سے ہُوا کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار حال زنداں کا یہ اک میرے نکلنے سے ہُوا کوئی رازِ دل ِ کہسار نہ کُھلنے پایا! روز اعلان تو چشموں کے اُبلنے سے ہُوا یہ مری فکر کہ آنکھوں کی خطا کہتا ہوں گرچہ زخمی مرا سر پاؤں پھسلنے سے ہُوا میں کہ معلوم مجھے اپنی حقیقت نہ مقام تُو کہ مقصود مرا روپ بدلنے سے ہُوا گُدگُدایا مجھے سورج نے تو پلکیں جھپکیں شور دریا میں مری برف پگھلنے سے ہُوا لوگ اُن کو مرے حالات بتا دیتے ہیں فائدہ خاک مجھے نام بدلنے سے ہُوا ٹھوکریں لگتی ہیں ہمسایوں کو اس کُوچے سے یہ اندھیرا تری قندیل نہ جلنے سے ہُوا اپنا سر پھوڑ، زمانے کی تباہی پہ نہ رو جو ہُوا خون کی تاثیر بدلنے سے ہُوا ہے تری ذات سے مشتق مرے لوہے کا مزاج میں تو کندن ہی تری آگ میں جلنے سے ہُوا میرے قدموں سے تعارف نہیں کرتی راہیں یہ خسارہ بھی مرے ساتھ نہ چلنے سے ہُوا میں تھا ڈُوبا ہُوا دہکی ہُوئی تاریکی میں میرا آغازِ سفر چاند نکلنے سے ہُوا آنا جانا بھی غنیمت ہے وہاں اے دانش میں جو بیمار ہُوا گھر میں ٹہلنے سے ہُوا