Posts

Showing posts from November 5, 2016

وہ بات یہ ہے کہ....ہم ہیں سادات کہ قبیلے سے ساقی جام ذرا پرے رکھ

وہ بات یہ ہے کہ....ہم ہیں سادات کہ قبیلے سے ساقی جام ذرا پرے رکھ....! مرشد کہ منہ سے یہ الفاظ ابھی ٹھیک سے ادا نہیں ہوئے تھے کہ ساقی کراہ کہ بولا حضور آپ.... آپ سید ہو؟ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی پھر تھوک اور آنسوں کہ مشترکہ گھونٹ نگلتے ہوئے آواز بلند ہوئی ہاں میں,...میں" سید" ہوں لیکن تم اب میری چاکری کرنے مت لگ جانا اور ناں ہی میری جی حضوری اگر کچھ کر سکتے ہو تو میرے لیے اتنا کرو کہ ایک تعویز لکھو اس پہ کچھ آیات پڑھ پھونکو اور اسے میرے گلے میں لٹکا ڈالو تاکہ میں اس کی محبت ہاں ہاں اسی طوائف کی محبت کو اپنے دل و دماغ سے نکال سکوں اور اپنے حسب و نصب کو پہچان سکوں........ایک دفعہ پھر سے خاموشی پوری محفل میں چھا گئی پھر ایک لمبا کش لیتے ہوئے خاموشی ٹوٹی اور وہ سید زادہ دھوئیں کی لمبی لمبی زلفوں میں سے چہرہ نکالتے ہوئے بولا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتا یا میں نے کبھی کوشش ناں کی ہو گی بہت دفعہ کی لیکن ہر بار میں ہی ہارا اور میرے اندر میری رگ رگ میں بسا ہوا عشق جیتا.....اب میں اکثر سوچتا کہ خود کی سانسوں کو اس پنجر سے آزاد کر ڈالوں پھر شاید اس طوائف کا اپناتے

اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی

اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہُوئی تھی تنہا تھے مگر خود سے تو وحشت نہ ہُوئی تھی یہ دن ہیں کی یاروں کا بھروسا بھی نہیں ہے وہ دن تھے کہ دُشمن سے بھی نفرت نہ ہُوئی تھی اب سانس کا احساس بھی اِک بارِ گراں ہے خود اپنے خلاف ایسی بغاوت نہ ہُوئی تھی اُجڑے ہُوئے اس دِل کے ہر اِک زخم سے پوچھو اِس شہر میں کس کس سے محبت نہ ہُوئی تھی؟ اب تیرے قریب آ کے بھی کچھ سوچ رہا ہُوں پہلے تجھے کھو کر بھی ندامت نہ ہُوئی تھی ہر شام اُبھرتا تھا اِسی طور سے مہتاب لیکن دِل وحشی کی یہ حالت نہ ہُوئی تھی خوابوں کی ہَوا راس تھی جب تک مجھے محسن یوں جاگتے رہنا میری عادت نہ ہُوئی تھی
میں کیسی ہوں سبهی پُوچهتے رہتے ، کیوں مُجھ سے میں کیسی ہوں میں کیسے ان کو بتلاؤں ، کبهی تو مُجھ میں رعنائی دهڑکتی ہے اُداسی شام کی ، مُجھ سے گلے مِل کر تڑپتی ہے مِرے لفظوں میں غم پرچھائیاں بن کر اُترتے ہیں شکستہ خواب ڈهل کر میرے اَشکوں میں اُترتے ہیں مِرے جذبوں کی سچائی مُجهے اکثر رُلاتی ہے اُداسی بهی مِری آنکھوں کے گوشوں پر مچلتی ہے کبهی تو میری آنکھوں میں خوشی کے دیپ جلتے ہیں کبهی میرے لبوں پر اِک حسیں مُسکان ہوتی ہے انوکهے گیت ہوتے ہیں کبهی یونہی ، اچانک چُپ سی لگ جاتی ہے ، کیوں! مُجھکو کسی سے بات کرنے کو میں آمادہ نہیں ہوتی کبهی سادہ سے لفظوں میں ، بڑا اظہار کر جاؤں کبهی خود اپنے لفظوں میں اُلجھ کر میں ہی رہ جاؤں کبهی میں ٹوٹ کر بکھروں کبهی خود میں سمٹ جاؤں کبهی میں بے تحاشا بے وجہ ہی ہنس پڑوں ، ! کبهی بے بات ہی رودوں کبهی انجان راہوں پر اکیلے ہی نکل جاؤں کبهی منزل کو پا کر بهی میں خود منزل کو ٹهکراوں بهلا کیا روپ ہے ، میرا یہ کیسے میں بتلاؤں میں کیسی ہوں

ندا فاضلی کا ایک شعر ہے جو دین بیزاروں کو بڑا مرغوب ہے وہ یوں کہ

ندا فاضلی کا ایک شعر ہے جو دین بیزاروں کو بڑا مرغوب ہے وہ یوں کہ ... . گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یو کرلیں کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے ندا فاضلی کے شعر کو عرفان خالد نے اپنی طرز پر سوچا گھر سے مسجد ہے اگر دور تو پھر یوں کر لو کسی ركشہ، کسی ٹم ٹم کی سواری لے لو کوئی ٹانگہ ہی پکڑ لو ، کوئی لاری لے لو فاصلہ گر ہو کئی میل خدا کے گھر کا آمد و رفت کی قیمت بھی تو دے سکتے ہو سائیکل کوئی کرائے پہ بھی لے سکتے ہو میکدے کے لئے جب گھر سے نکل سکتے ہو ایک بوتل کی توقع پہ بہل سکتے ہو ’’تم چراغوں کی طرح شام سے جل سکتے ہو‘‘ تم کو مسجد کی طرف پاؤں بڑھانے میں ہے عذر جام ومینا کے لئے آگ پہ جل سکتے ہو پھر یہ مسجد میں نہ جانے کا فسانہ کیا ہے ؟ خانۂ رب سے تغافل کا بہانہ کیا ہے ؟ تم ارادہ تو کرو ، راستے گھٹ سکتے ہیں فاصلے بیچ میں جتنے ہیں سمٹ سکتے ہیں یہ بھی گر کر نہ سکو ، گھر کے کسی گوشے میں سجدۂ شکر بجاؤ ، تلاوت کرلو چھپ کے دنیا کی نگاہوں سے عبادت کرلو یہ جو بچوں کو ہنسانے کی تمنا ہے تمہیں اس فسانے کو بھی اک روز حقیقت کر لو پھینک دو جام و سبو ، ساغر و مینا اپنے اور روتے ہوئے بچوں سے محبت کر لو ا

ابا فرید الدین گنج شکر

ابا فرید الدین گنج شکر ------------------------- شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر برّصغیر میں چشتیہ سلسلے کے عظیم صوفی بزرگ ہیں۔ آپ کا مزار پاک پتن، پاکستان میں ہے۔ عظیم صوفی بزرگ اورشاعر بابا فرید الدین گنج شکر کا اصل نام مسعو د اور لقب فرید الدین تھا۔ [1] آپکی ولادت 1173ء بمطابق 589ھ میں ہُوئی اور وصال1265ء بمطابق 666ھ میں ہوا ۔آپکا خاندانی نام فرید الدین مسعود ہے اور والدہ کا نام قرسم خاتون ؒ اور والدمحترم قاضی جلال الدین ہیں ۔بابا فرید پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ۔ [2] آپ بغیر کسی شک و شبہ کے پنجابی ادب کے پہلے اور پنجابی شاعری کی بُنیاد مانے جاتے ہیں۔ آپ کا شمار برصغیر کے مُشہور بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی شمع جلائی اور صرف ایک اللہ کی دُنیا کو پہچان کروائی۔ بابا فرید584/ 1173 میں ملتان کے ایک قصبے کھوتووال میں پیدا ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے آباء کابل کے فرخ شاہ کی اولاد میں سے تھے۔ [3] کہتے ہیں کہ بابا فرید کے والد شیخ شعیب سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانے میں ملتان کے قصبہ کھوتووال میں آ کر آباد ہوئے۔بعض روایات کے م

٭راز٭

٭راز٭ ------ ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا۔ اُسے کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا۔ ایک روز اُسکے وزیرِ خاص نے بادشاہ سے اِس راز کو جاننے کی ٹھان لی، حسب سابق بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر کا دھیان اِدھر اُدھر ہو جائے، لیکن اُس نے بھی جاننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا، آخر بادشاہ نے وزیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لیکن اُسے ایک شرط پر بتانے کی حامی بھری کہ وہ آگے کسی کو نہیں بتائے گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اُس نے شرط کی خلاف ورزی کی تو اُسے سخت سزا بھگتنا ہو گی۔ بادشاہ نے بتایا کہ، "اُس کے سر پر ایک سینگ ہے، اِسی لیے وہ اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے۔۔۔!" اِس بات کو کچھ دِن ہی ہوئے تھے کہ پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہے۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔ اُس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور شرط کی خلاف ورزی کی پاداش میں شاہی حکم صادر کیا کہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ وزیر بہت سمجھدار تھا، وہ جھٹ سے بولا، "باد

ﮈﮬﻮﻝ ﻣﻨﮕﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔

ﮈﮬﻮﻝ ﻣﻨﮕﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺧُﺸﯿﺎﮞ ﮈﮬﻮﻝ ﺩﯾﺎﮞ ، ﻣﮩﻨﺪﯼ ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧُﻮﮞ ﻻ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧُﻮﮞ ﻻ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺻﺒﺮ ﺩﺍ ﮔﮭُﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ، ﺗﯿﺮﯼ ﻏﺮﺽ ﻣِﭩﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺗﯿﺮﯼ ﻏﺮﺽ ﻣِﭩﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺭﻭﻧﮯ ﻋُﻤﺮﺍﮞ ﺩﮮ، ﮔﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﮔﻞ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﮐﻔﻨﯽ ﻏُﺮﺑﺖ ﺩِﯼ ، ﺗﯿﺮﮮ ﺑﮭﺮﻡ ﺑﻨﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﮭﺮﻡ ﺑﻨﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ۔ ﺣﺴﺮﺕ ﻋُﻤﺮﺍﮞ ﺩِﯼ ، ﮨﺘﮭّﯿﮟ ﺍﺝ ﺩﻓﻨﺎ ﺁﺋﯽ ﺁﮞ
Image