Posts

Showing posts from October 24, 2016

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا صحنِ گل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا اک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا وہ جو افسانۂ غم سن کے ہنسا کرتے تھے اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے پریشان رہے شہر تو شہر ہے جنگل بھی نہ جنگل نکلا کون ایوب پریشان ہے تاریکی میں چاند افلاک پہ، دل سینے میں بےکل نکلا

پھر یوں ہوا کہ،،، درد کا یارا نہیں رہا

پھر یوں ہوا کہ،،، درد کا یارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ، کوئی سہارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ گردش دوراں میں گھر گیا پھر یوں ہوا کہ،،، وہ بھی ہمارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ چاند بھی بدلی میں چھپ گیا پھر یوں ہوا کہ،،،،،،،،، کوئی ستارہ نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ،،، عشق نے کاہل بنا دی پھر یوں ہوا کہ کام بھی پیارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ نا کردہ گناہ کی ملی سزا پ ھر یوں ہوا کہ،،،،،، کوئی کفارہ نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ اشک کے دریا میں گر گیا پھر یوں ہوا کہ،،،،، کوئی کنارہ نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ دل سے اترتا گیا وہ شخص پھر یوں ہوا کہ،،،،، جان سے پیارا نہیں رہا

پھر یوں ہوا کہ،،، درد کا یارا نہیں رہا

پھر یوں ہوا کہ،،، درد کا یارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ، کوئی سہارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ گردش دوراں میں گھر گیا پھر یوں ہوا کہ،،، وہ بھی ہمارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ چاند بھی بدلی میں چھپ گیا پھر یوں ہوا کہ،،،،،،،،، کوئی ستارہ نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ،،، عشق نے کاہل بنا دی پھر یوں ہوا کہ کام بھی پیارا نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ نا کردہ گناہ کی ملی سزا پ ھر یوں ہوا کہ،،،،،، کوئی کفارہ نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ اشک کے دریا میں گر گیا پھر یوں ہوا کہ،،،،، کوئی کنارہ نہیں رہا پھر یوں ہوا کہ دل سے اترتا گیا وہ شخص پھر یوں ہوا کہ،،،،، جان سے پیارا نہیں رہا

ﺩﻝ ﺑﮍﺍ ﻧﮑﻤﺎ ﮨـﮯ

ﺯﯾﺴﺖ ﮐـﮯ ﺗﺮﺍﺯﻭ ﻣﯿﮟ۔۔۔۔ ﺍِکــــ ﻃﺮﻑ ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ۔۔۔۔ ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺎ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﺍ۔۔۔۔ ﺗﻮ ﺳﯿﺎﻧـﮯ ﮐﮩﺘـﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔ ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﻮ۔۔۔۔ ﺍﺱ ﻃـﺮﺡ ﮔﻨﻮﺍﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﻋﺎﻗﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﯿﻮﮦ ﮨـﮯ۔۔۔؟؟ ﻋﻘﻞ ﻭﺍﻟـﮯ ﮐﮩﺘـﮯ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔ ﻋﺸﻖ ﺗﻮ ﻣﻌﯿﺎﺩﯼ ﮨـﮯ۔۔۔۔ ﭼﺎﺭ ﺩﻥ ﮐﺎ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ۔۔۔۔ ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺎﻧـﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﺳـﮯ۔۔۔۔ ﻣﺘﻔﻖ ﺗﻮ ﮨُـﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ۔۔۔۔ ﺩﻝ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨـﮯ۔۔۔۔ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐـﮯ ﺭﺷﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ۔۔۔۔ ﭼﺎﮨﺘﯿﮟ ﻣﻘﺪﻡ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔ ﮨﺎﮞ ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﺍِکــــ ﺳﭻ ﮨـﮯ۔۔۔۔ ﺯﯾﺴﺖ ﮐـﮯ ﺗﺮﺍﺯﻭ ﻣﯿﮟ۔۔۔۔ ﺍِکــــ ﻃﺮﻑ ﻣُﺤﺒّﺖ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ۔۔۔۔ ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﺎ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﺍ۔۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮑﻤﺎ ﺩﻝ۔۔۔۔ ﻋﻘﻞ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﺳـﮯ ﺍﺧﺘﻼﻑ ﮐﺮﺗﺎ ﮨـﮯ۔۔۔۔ ﺗﺎﺣﯿﺎﺕ ﭘﭽﮭﺘﺎﻭﺍ ﻋُﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ۔۔۔۔ ﺳﺐ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨـﮯ۔۔۔۔ ﺩﻝ ﺑﮍﺍ ﻧﮑﻤﺎ ﮨـﮯ۔۔۔! —

ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺧﯿﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺩﻟﮑﺸﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ .

ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺧﯿﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺩﻟﮑﺸﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ . ﻭﮦ ﺩﺭﺩ ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺴﮯ ﺟﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ  . . ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎ ﻏﻢ  ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﺍﺱ ﺭﻧﺞ ﺑﮯ  ﺧﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺍﺏ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ  . . ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﺭ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻤ ﺮ ﺟﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ  . . ‏( ﻧﺎﺻﺮ ﮐﺎﻇﻤﯽ ‏)

ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮچیے

Image
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺼﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍٓﯾﺎ، ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺱ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﯼ، ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻟﯿﮧ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ، ﻣﮑﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭨﺎﺋﯿﻔﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 323 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ 33 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺟﺮﻧﯿﻞ، ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺩﯼ ﮔﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭﺍﻋﻈﻢ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣ

سمجھ نہیں آتی کہ ہم کب بڑے ہوں گے

سمجھ نہیں آتی کہ ہم کب بڑے ہوں گے . . کب ہمیں سمجھ آے گی کہ یہ دنیا رونے والوں اورخود پر ترس کھانے والوں کو کچھ نہیں دیتی سواے مزید توڑ دینے کے . . مزید کمزور کر دینے کے . . چلو مان لیا کہ رونا ایک فطری بات ، آ ہی جاتا مگر یہ کیا کہ ہم اپنا دکھ اور کہانی ہر کسی کو بتاتے پھریں. .یقین مانیں، کچھ نہیں حاصل ہوتا سواے چند فارمل سے جملوں سے . . یاد رکھیں ہمارا ہر کسی کو اپنی دکھ و پریشانی کی داستان سنانا ہم کو مزید کمزور کرتا ہے . .لوگ ہمیں سنتے ، افسوس کرتے اور چپ ہو کر چلے جاتے. حاصل کیا ہوتا _؟؟. .سواے اسکے کہ ہم ترس کھانے والی حالت میں آ جاتے . .ہمارا امیج ایک کمزور و بیچارگی کا بنتا سب کے لئے . . . تو جناب . .غم ہلکا کرنا ہے تو اکیلے میں رویں ، پہلے صرف اپنے رب سے رجوع کریں...اسکو اپنا دکھ بیان کریں. .صرف اسی سے ہمت ،حوصلہ اور حل مانگیں . . .اگر ضروری ہو تو صرف چند اچھے دوستوں و اپنوں سے مشورہ کیجئے . . .مگر پھر انکو دکھ و پریشانی کا بڑے حوصلہ و اعتماد کے ساتھ ذکر کرنا. . بہت سکوں و اللّه پر مکمل یقین کے ساتھ حل تلاش کریں. اللّه تب کوئی بہترین سا وسیلہ ضرور بناے گا .یہ نہیں کہ ہر آنے

حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "حرف حرف حقیقت

ایک دفعہ بابا جی فرید رحمتہ اللہ علیہ اپنے سیلانی دور میں ایک بستی سے گزرے۔ دیکھا کہ ایک خوبصورت عورت ایک غریب عورت کو مار رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جی نے وجہ دریافت فرمائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اطلاع ملی کہ یہ امیر عورت ایک عشرت گاہ کی مالکہ ہے اور غریب اس کی ملازمہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ مشاطہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن نوکرانی نے مالکن کو کاجل ڈالا اور اس کے ساتھ کوئی ریت کا ذرّہ بھی تھا جو اس کی خوبصورت آنکھوں میں بڑا تکلیف دہ لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے اس نے خادمہ کو مارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جی اپنے سفر پر گامزن ہو گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مدت کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا اور اسی بستی کے قبرستان میں قیام کے دوران بابا جی نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک چڑیا نے ایک انسانی کھوپڑی میں اپنے بچے دیے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چڑیا آتی اور چونچ میں خوراک لا کر بچوں کو کھلاتی، لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچے کھوپڑی کی آنکھوں سے باہر منہ نکالتے اور خوراک لے کر اندر چلے جاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی کھوپڑی کا یہ مصرف بابا جی کو عجیب سا لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے مراقبہ کیا کہ یہ کھوپڑی کس آدمی کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں معلوم ہو

''یار نوں کِنج منائیے؟''

''یار نوں کِنج منائیے؟'' پرانے دور کی ایک پنجابی کہاوت ہے کہ ایک بابا جی حج کو گئے۔ طواف وداع میں اپنے انداز میں یو گویا تھے: ربّا! ساڈے جیڑا چوری کرے، اونوں کھوتے تے بٹھا کے، منہ تے مٹی پا کے سِر مُن کے پِنڈ دے چکر لواندے نے۔ ربّا! سِر وی مُن لیا اے، چکر وی کَٹ لے نے۔ ربّا! ہُن تے معاف کر دے۔ اُس کو منانے کے لیے لمبی چوڑی دعائیں، مسجع جملے، مقفع الفاظ نہیں، بلکہ وہ سادہ انداز اپنائیں جسے دیکھ کر وہ مسکرائے اور کہے کہ ''جا! کی یاد کریں گا''۔۔۔۔۔ اپنی زندگی، لباس، دسترخوان کو جتنا مرضی پرتکلف بنائیں لیکن اُس سے تعلق بے تکلف قائم کریں کہ یہی انداز تھا جب اُس کے تعلق دار نے کہا کہ ''وما اَنا من المتکلفین"'۔

عورت اور مرد کی عزت کا فرق

عورت اور مرد کی عزت کا فرق..... ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو آج کل ایک نیا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سبق کے ذریعے ان میں یہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ”عزت“ کو ان سے منسوب کرکے دراصل ان کے لیے ایک بیڑی بنا دیا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ لڑکا منہ کالا کرلے تو اس سے خاندان کی عزت کو فرق نہیں پڑتا لیکن لڑکی اگر کسی کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو خاندان کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ انہیں فریب دینے والوں کی واردات دیکھیے کہ اس بکواس کے ذریعے ہماری بچیوں کو کوئی حق نہیں دلایا جا رہا بلکہ مرد سے عزت کی نیلامی میں ہمسری کروائی جانی مقصود ہے۔ کہ اگر مرد منہ کالا کرتا ہے اور اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تو خاتون کو بھی منہ کالا کرنے کی آزادی دی جائے اور ایسا ہونے پر عزت کی رٹ نہ لگائی جائے۔ یعنی اگر مرد بےغیرت ہے تو عورت کو بھی بےغیرت ہونا چاہیے اور یہ فریب انھیں دے وہی مرد رہا ہے جو روز ان کے شکار کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ لبرل مرد ! چلیے میں سمجھاتا ہوں کہ خاندان کی عزت عورت سے ہی کیوں داؤ پر لگتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری بچیوں کو یہ بات سمجھ آگئی تو وہ اپنے رب کے آگ

چوروں کا امام :

چوروں کا امام : یشن کا شدید حملہ ھوا تھا اور وہ رقت بھری آواز میں گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگ رھے تھے ،،،،،،،،،، یا اللہ ،،،،، میں بڑا ھی کمینہ بندہ ھوں ،،،،،، مجمعے نے زوردار آواز لگائی آمین ،، یا اللہ ،، میں بڑا " پاپی انسان " ھوں ،،،،، مجمعے نے نعرہ لگایا - آمین ،،،،،،،،،،، یا اللہ ھر صغیرہ کبرہ گناہ میرے اندر ھے ،،، مجمعے نے زور سے کہا - آمین،، یا اللہ میں ،،،،،،،،،،،،،،،،،، بات ابھی مولوی صاحب کے منہ میں ھی تھی کہ مجمعے نے فلک شگاف نعرہ بلند کیا - آآآآآآآآآآآآآآمــــین ،،،،،،، مولوی صاحب کا تراہ نکل گیا جس کے ساتھ ھی ڈپریشن ختم ھو گیا اور مولوی واپس آ گیا ،، کہنے لگے ،،،،،،،،،،، بے غیرتو تُسی وی کُج کیتا اے یا سارے گناہ میں ای کر چھڈے نےےےےےےے ؟ مجمعے نے کمزور سی آمین کہی ،،،،،،،، یا اللہ راجہ صاحب کی دنبی کی قربانی قبول فرما اور اس کا ثواب اس بکروال کو عطا فرما ،جس کی یہ دنبی راجہ صاحب نے چوری کی تھی ،،،،،، ایک آمین کم ھو گئ ،، یا اللہ ملک صاحب جو شادی شدہ عورت بھگا کر لے گئے تھے وہ تینوں بچوں سمیت ان کو معاف فرما دےےےےے،،،،،،، ایک اور آمین کم ھو گئ ،،،،،،،،،،، یا اللہ ان

زندگی نے وفا نہ کی :

زندگی نے وفا نہ کی : آج میں گھر میں بیٹھی ہوی تھی تاریخ اسلام پڑھ رہی تھی... پڑھتے پڑھتے زہن میں آیا کہ دنیا کے اندر بڑے بڑے لوگ آے... کوئ جرنیل بنا کوئ سپاہ سالار بنا تو کوی حکمران فلاسفر ڈاکٹر اور سائنسدان بنا اور کوئ حکماء میں شامل ہوا.... ان سب نے دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا.... کسی نے سائنس کے میدان میں کسی نے شاعری اور فلاسفی کے میدان میں تو کسی نے ادب و لغت کے میدان میں تاریخ کے ان مٹ نقوش چھوڑے..... لیکن جب ان کی زندگیوں کو پڑھتی ہوں.... تو ان سب میں ایک بات کامن نظر آتی ہے وہ بات یہ ہے... کہ اگر ہم نے کسی فاتح کی حالات زندگی کا مطالعہ کیا... تو آخر میں یہ بات پڑھنے کو ملتی ہے..... کہ صاحب نے تو اور بھی علاقوں کو فتح کرنا تھا.... لیکن زندگی نے وفا نہ کی، اور یوں مزید علاقوں کو فتح نہ کرسکے،... مختلف شعرا کی زندگیوں کو پڑھا کہ انھوں نے بہترین کلام لکھے ..... مگر زندگی نے وفا نہ کی اور انکی ایک بہترین تصنیف لکھتے ہوے ادھوری رہ گئ...... کچھ سائنسدانوں کی زندگیاں بھی پڑھی ہے.... آخر میں یہی بات لکھی نظر آئ کہ فلاں بہت اعلیٰ سانسدان تھے.... آخری وقتوں میں اتنے اچھے اچھے ای

#_______ایک_غلام_کی_دلچسپ_کہانی_______#

ایک ﻏﻼﻡ تھا. ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﮐﺎﻡ ﭘﺮ ﻧﮧ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﺠﻤﻌﯽ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻏﺎﺋﺐ ﻧﮧ ﮨﻮ . ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺴﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﮱ ،، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻏﯿﺮ ﺣﺎﻇﺮ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﺩﯾﺎ .. ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﮨﯽ ﺩﯼ، ﻏﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ،، ﺗﻮ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺟﺐ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﯿﻮﮞ؟ " ﺗﺐ ﻏﻼﻡ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ؛ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﻏﯿﺮ ﺣﺎﻇﺮ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮯ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﺯﻕ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﮯ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ،، ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻏﯿﺮ ﺣﺎﻇﺮ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﺯﻕ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ،، ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺭﺯﻕ ﮐﮯ ﺧﺎﻃﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺫﻣﮧ ﺧﻮﺩ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ.

ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﻣﮩﺮﺑﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ

ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﻣﮩﺮﺑﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺧﺪﺍﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﻟﮕﺘﯽ ﮬﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐُﮭﻞ ﮐﮯ ﺻﺪﺍﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﻧﮑﺘﮧ ﯾﮩﯽ ﺍﺯﻝ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺣﻮﺍ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﺣﺴﻦ ﺁﺩﻡ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﮔﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﮐﺮ ﺭﮬﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﺜﻞِ ﯾﺎﺭ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﮯ ﺭﻭﺑﺮﻭ ﻣﻠﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻄﺎﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺳﺎﺭﮮ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺻﺪﺍ ﺩﺭﻭﯾﺶ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺧﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺩﻋﺎﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﻣﻮﺳﯽ ﮐﻮ ﺟﻮ ﺳﻤﺖِ ﻃﻮﺭ ﺍﮎ ﻣﻮﺝ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﮯ ﺷﻮﻕ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﮯ ﻋﺸﻖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﺗﻮ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﺘﻢ ﮐﺐ ﮐﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺮﺷﺪ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻋﺸﻖ ﮬﮯ ﮨﻢ ﮨﯿﮟ ﮔﺪﺍﺋﮯ ﻋﺸﻖ

کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا

کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔ ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا ، ، کان پڑی آوازسُنائی نہ دیتی تھی، اتنے میں پرنسپل کلاس روم میں داخل ہوئے، کلاس روم میں سناٹا چھاگیا ۔ پرنسپل صاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے کالج کے وزیٹنگ پروفیسر، پروفیسر انصاری ہیں، آپ مفکر دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ یہ آپ کو کامیاب زندگی گزارنے کے کچھ گر بتائیں گے۔ ان کے کئی لیکچر ہوں گے۔ جو اسٹوڈنٹس انٹرسٹڈ ہوں وہ ان کے لیکچر میں باقاعدگی سے شریک ہوں۔ *1* سبق 1 کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی پروفیسر کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ پروفیسر کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ وزیٹنگ پروفیسر انصاری نے ہال میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا…. ‘‘تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے؟’’…. ‘‘یہ ناممکن ہے۔’’، کلاس کے ایک ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور آپ

رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔

رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک شخص قلعے کی دیوار سے رسا لٹکائے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جس قدر اپنی منزل کے قریب آرہا تھا، اسی قدر طرح طرح کے اندیشے اس کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہے تھے۔ "کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعے والے مجھے دیکھ لیں اور تیر مار کر راستے ہی میں میرا قصہ تمام کر دیں۔۔۔۔ کہیں نیچے اترتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میرے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔" یہ تھے وہ خدشات جو اس کے دل و دماغ میں شدت سے گونج رہے تھے۔ پھر جوں ہی اس نے زمین پر قدم رکھا مجاہدین نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کا یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ مسلمان مجاہد رات کے اندھیرے میں قلعے سے بے خبر ہوں گے۔ اترنے والے نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اسے لشکر کے سپہ سالار کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ وہ سپہ سالار کون تھے؟ وہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مجاہدین کی مٹھی بھر فوج کے ساتھ ملک شام کے دارالسلطنت دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ دن پر دن گزرتے جا رہے تھے مگر قلعہ تھا کہ کسی طور فتح ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ خالد بن ولید رضی ا

"میرا ایک سوال تها اللہ سے

"میرا ایک سوال تها اللہ سے ایک ایسا سوال جو میں اس سے تب پوچها کرتی تهی جب کوئی میرا دل دکهاتا تها یا میرے ساتھ زیادتی کرتا تها میں اللہ سے پوچها کرتی تهی کہ اے اللہ آخر میں ہی کیوں؟؟؟ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے..؟؟؟ جائے نماز بچهائے ہاتھ اٹهائے کبهی سجدے میں گر کر، کبهی اسے پکارتے ہوئے مخاطب ہوتی تهی.. میں اسے اس طرح سے آوازیں دیتی تهی جیسے وہ میرے آس پاس میرے بےحد قریب کہیں موجود ہو.اور وہ واقعی میرے بےحد قریب موجود تها... مگر مجهے اس کی طرف سے جواب نہیں ملتا تها... اٹهے ہوئے ہاتھ بے دم ہو کر گر جاتے تهے.. شیطان کی کاری ضرب اپنا اثر دکها دیتی تهی...میں تهکنے لگتی، اللہ سے روٹهنے لگتی.. کچھ تو کہتا وہ مجھ سے.. صرف اتنا ہی بتا دیتا کہ میرے ساتھ لوگ برا کیوں کرتے ہیں..کیا میں بری تهی؟؟؟.. بار بار ایسا ہوتا رہا اور میں ٹوٹ کر اپنے وجود کو سمیٹتے ہوئے یہی سوال کرتی رہی اور پهر ایک دن مجهے اپنے سوال کا جواب مل گیا....... مجهے وہی جواب مل گیا جس کی مجهے تلاش تهی.... ہاں مجهے اپنی پہچان ہو گئی.. میں جان گئی کہ میرے ہی ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے.. راتوں کے وہ طویل سجدے اور پهر ہاتھ اٹه

سفید دانت کس کو پسند نہیں اور ان پر زردی چہرے کو بدنما کرنے کا باعث بن جاتی ہے

سفید دانت کس کو پسند نہیں اور ان پر زردی چہرے کو بدنما کرنے کا باعث بن جاتی ہے ۔ یقیناً آپ دن میں ایک یا دو بار دانتوں پر برش کرتے ہوں گے تاکہ وہ صاف رہ سکیں ، مگر پھر بھی قدرتی سفیدی واپس نہیں آتی ؟اگر ایسا ہے تو امریکن اکیڈمی آف کاسمیٹک ڈینٹسٹری کے مطابق ہمارے ارگرد موجود چند عام چیزیں آپ کی مسکراہٹ کو روشن کرسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں دانتوں کو جگمگا سکتی ہیں ۔ میش سٹرابریز: اپنے دانتوں پر کچلی ہوئی سٹرابریز کو برش کرنا ہوسکتا ہے سننے میں عجیب لگے ، مگر یہ بہت تیزی سے انہیں جگمگانے کا بہترین راستہ ضرور ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سٹرابری میں تیزابیت ہوتی ہے جو بلیچنگ ایجنٹ کا کام کرتی ہے ۔ ایک یا دو پکی ہوئی سٹرابریز کو کچل لیں اور ان میں اپنے ٹوتھ برش کو ڈبو کر دانتوں پر عام انداز سے برش کرلیں ۔ جب آپ صفائی کرلیں گے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک چٹکی میٹھے سوڈے سے کلی کرلیں۔ بیکنگ سوڈا اور لیموں کے عرق کا پیسٹ: کیا لیموں آپ کے دانتوں کو جگمگا سکتا ہے؟ اس کا مختصر جواب ہے کہ ہاں! لیموں میں سٹرک ایسڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، جو دانتوں کی صفائی کے لیے قدرتی جز کا کام کرسکتا ہے،

مس عائشہ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔

مس عائشہ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺍﺋﻤﺮﯼ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﮐﻼﺱ 5 ﮐﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ " ﺁﺋﯽ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺁﻝ " ﺑﻮﻻ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺳﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺘﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﮐﻼﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭘﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﭽﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ مس عائشہ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮧ ﺑﮭﺎﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ طارق ﺗﮭﺎ۔ طارق ﻣﯿﻠﯽ ﮐﭽﯿﻠﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺁﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺑﮕﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﻮﺗﮯ، ﺟﻮﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﺴﻤﮯ ﮐﮭﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ، ﻗﻤﯿﺾ ﮐﮯ ﮐﺎﻟﺮ ﭘﺮ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ۔ ۔ ۔ ﻟﯿﮑﭽﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﺎ۔ مس عائشہ ﮐﮯ ﮈﺍﻧﭩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﭼﻮﻧﮏ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﺗﻮ ﻟﮓ ﺟﺎﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺧﺎﻟﯽ ﺧﻮﻟﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮐﮧ طارق ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﮯ۔ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ مس عائشہ ﮐﻮ طارق ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺳﯽ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﮐﻼﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ طارق مس عائشہ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺘﺎ۔ ﮨﺮ ﺑﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ طارق ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ۔ ﺑﭽﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﮭﻠﮑﮭﻼ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺍﻭﺭ مس عائشہ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺬﻟﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﯿﮟ۔ طارق ﻧﮯ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ مس عائشہ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﭘﺘﮭ

چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے فراز ِعرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ! بڑا اندھیرا ہے بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے مجھےیقین دلاؤ ! بڑا اندھیرا ہے بنام ِزہرہ جبینانِ خطّہء فردوس کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے ساغر صدیقی

ہم لوگ برہمن پریم کے ،اک مومن اپنا یار

ہم لوگ برہمن پریم کے ،اک مومن اپنا یار ہم بدھا برگد بھوگتے ہم کعبے کے معمار ہم پریم نگر کی خاک ہیں اور پانی زم زم کا ہم طور پہ جلتی آگ ہیں اور بہکی تیز ہوا ہم چاکر پاک رسول کے صدیق عمر عثمان ہم نوکر حسن حسین کے ہم مولےٰ پر قربان ہم مٹی ہیں جیلان کی اور باھو سے منسوب عاشق اصغر سلطان کے ہم طالب اور مطلوب ہم پیر وراق کی گود میں کھیلے اور ہوئے جوان ہم شور نگر کی خاک ہیں اور کوٹ مٹھن کا دان ہم سینے سے بغداد ہیں اور چہرے سے لاھوت ہم آنکھیں ہیں ھاھوت کی اور ناظر ہیں ناسوت ہم چشت بہشت کے میزباں اور پاک پتن کا گڑ ہم سارنگی کی تار ہیں اور طبلے کا ہیں پڑ ہم سجدے میں سج دھج گئے اور ڈٹ کے کیا قیام ہم ہند کے اتھرے جاٹ ہیں آقا کے خاص غلام ہم چلتے پیر گھسیٹ کے ہم شین کو بولیں سین تم خاطر دین ہے راستہ ہم خاطر مرشد دین ہم لوگ ستارا وار ہیں ہم چاند کے صحبت دار تم آگ کو پوجو خوف میں ہم آگ کریں گلزار تم مکے کے مکار ہو تم طائف کے غدار ہم یثرب کے ایوب ہیں ہم حبشہ کے سردار ہم لاکھ کروڑ میں ایک ہیں اور ایک کے جان نثار ہم تین سو تیرہ مست ہیں ہم مسجد مندر غار ہم پاپی خاکی خاک ہیں ہم نار بھی ہیں اور نور ہم بوجھ

(حکایت رومی )

ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم کھانے لگا اتفاقًا باغبان بھی وہاں آپہنچا اور چور سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوبے شرم یہ کیا کر رہے ہو؟ چور مسکرایا اور بولا ارے بے خبر یہ باغ اللہ کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں ، وہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا ہوں ، میں تو اسکا حکم پورا کر رہا ہوں ، ورنہ تو پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا باغبان نے چور سے کہا جناب! آپ کا یہ وعظ سن کر دل بہت خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ کی دست بوسی کرلوں ۔۔۔۔ سبحان اللہ اس جہالت کے دور میں آپ جیسے عارف کا دم غنیمت ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو مدت کے بعد توحید ومعرفت کا یہ نقطہ ملا ھے جو کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہی کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں ۔۔۔۔۔۔ قبلہ ذرا نیچے تشریف لائیے ۔۔۔۔۔۔ چور اپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اور جھٹ سے نیچے اتر آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اسکو پکڑ لیا اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا ۔ پھر خوب مرمت کی ، آخر میں جب ڈنڈا اٹھایا تو چور چلا اٹھا ، کے ظالم کچھ تو رحم کرو ، میرا اتنا

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮩﺖ ﮔﮩﺮﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﺗﮭﺎ

ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮩﺖ ﮔﮩﺮﺍ ﺭﺷﺘﮧ ﺗﮭﺎ ، ﻣﮕﺮ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﺳﮯ ﮬﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﺨﺖ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﭼﻞ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔۔ ﺑﺎﺕ ﺑﺲ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻭﺭﻧﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﺎﺹ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔۔ ﺍﻧﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮﺍﻧﺎ ﮬﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ۔۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﮐﺎﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮈﺭ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺯﺭﮔﺮ ﻣﯿﺎﮞ ﻣﺎﺭ ﺩﮬﺎﮌ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺍﺗﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ۔۔ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮬﮯ۔۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻥ ﻭﻓﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﮯ۔۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺿﻤﯿﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﻣﻼﻣﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮬﺎ ، ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﻢ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﺁ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭼﺎﮬﺎ ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﻮ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﺭﻭﺅﮞ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﻮﮞ۔۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﮍﯼ ﮐﯽ ﺳﻮﺋﯽ 9 ﮐﺮﺍﺱ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ، ﻟﮩﺬﺍ ﺳﻮﭼﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺳﻮ ﮔﯿﺎ ﮬﻮ ، ﮐﻞ ﮐﺎﻝ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ۔۔ ﻭﮬﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺬﮐﺮﮮ ﭘﮧ ﺑﮭﮍﮎ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﮯ ﺗﮍﭖ ﺍﭨﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﮑﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭺ ﺭﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺪﻟﯽ ﮬﮯ ۔۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﺮﯾﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ ﮬﯽ ﺑﺎﺕ ﮬﻮ ﮔﯽ۔۔ ﻻﮐﮫ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯿﺎﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺟﺐ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮬﻮﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺣﻢ ﻃﻠﺐ ﻧﮕﺎﮬﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺣﯿﻢ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮯ ﺑﺲ ﻧﮕﺎﮬﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﻮﮔﺎ۔۔ﯾﻘﯿﻨﺎ

ہماری دعا اور نماز

ہماری دعا اور نماز ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﺤﻂ ﺳﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻓﺎﺭﻍ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺭﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﯾﺸﯽ ﻣﺎﻟﮑﺎﻥ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﮯ ،، ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺳﺎﯾﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﻤﻌﮯ ﮐﮯ ﺧﻄﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ،، ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺟﻤﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﮐﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺎ ﺩﺭﺟﮧ ﭘﺎﮔﺊ ،، ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﭘﮧ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ،، ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺫﺭﺍ ﭘﺎﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﺟﺎ ﺭﮬﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﺩﮮ،، ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮑﺮﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮬﺎﻧﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮬﻮﺍ ﺩﺭﯾﺎ ﭘﺎﺭ ﮐﺮ ﮔﯿﺎ ،ﻋﻼﻗﮧ ﮔﮭﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﺗﮭﺎ ، ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺳﻼﻣﺖ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺭﺳﺎﺋﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ،، ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭘﺎﺭ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﺁﺗﺎ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮑﺮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻭﺯﻥ ﺩﮔﻨﺎ ﭼﮕﻨﺎ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﭼﻮﻧﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑ