اک آن سے اس نے پوچھا تھا کیا ہار کی بازی کھیلو گی؟

 اس بار تو دل کی بازی میں اے جانِ جاں سب ہار دیا
 زر ہار دیا، سر ہار دیا، ظاہر پنہاں سب ہار دیا
 جب عشقِ حقیقی نے دل کے دروازے پر آ دستک دی
 جاں سحر زدہ سی اُٹھ بیٹھی،جو کچھ تھا جہاں سب ہار دیا
تھیں وصل کی راہیں تنگ بہت سو بھاری گٹھر پھینک دیئے
 دنیا کی ہوس،دنیا کی متاع اک بارِ گراں سب ہار دیا
جب عشق نے پوچھا چپکے سے چلنا ہے تو چل اب دیر نہ کر
 میں ننگے پائوں دوڑ پڑی، پوچھا نہ کہاں، سب ہار دیا
اب تیرے در پر رونا ہی اس دل کو تسلی دیتا ہے
وہ رونق میلے دنیا کے ،وہ عشقِ بتاں سب ہار دیا
ہو عشق بھی اور خوداری بھی،دنیا کی متاع ہو پیاری بھی
 یہ بات نہیں اک عاشق کے شایانِ شاں،سب ہار دیا
 جب ہم بھی ترے اور جاں بھی تری،پھر بھائو تائو ٹھیک نہیں
اور عشق کوئی بیوپار نہیں،سو سُود و زیاں سب ہار دیا
 کچھ پھندے تھے مضبوط بہت اور دل کو جکڑے رکھتے تھے
 اب رشتے ناطے دنیا کے ، اک وہم و گماں ،سب ہار دیا
مولا کی طلب کے دعوئوں میں ، لفاظی سے کب بات بنے
تصدیق عمل سے کی جس نے کھولی نہ زباں سب ہار دیا
 اک آن سے اس نے پوچھا تھا کیا ہار کی بازی کھیلو گی؟
میں نعرہ مار کے بول اٹھی،ہاں ہاں مری جاں سب ہار دیا
لہجے کی کھنک،لفظوں کی چمک،سب گذرے دور کا قصہ ہے
 وہ تانا شاہی کی عادت ، وہ شوکت و شاں سب ہار دیا
 وہ دن بھی عرشیؔ بیت گئے ،جب طرزِ بیاں میں جادو تھا
اب لفظ ہیں گونگے، ہونٹوں پر نہ "ہوں نہ ہاں" سب ہار دیا

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے