بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے



بس یہ سنتے ہی سخن ختم ہمارا ہو جائے
واہ کیا کہنے بہت خوب دوبارہ ہو جائے
رات بھر ہوتی رہے ٹوٹ کے دریا زاری
یوں بغل گیر کنارے سے کنارا ہو جائے
روز کرتا ہوں میں دنیا کے محلے میں خرام
جانے کب کون سی چلمن سے اشارہ ہو جائے
چاک سے ہو کے بھی صد چاک لیے پھرتا ہے
جسم کی آخری خواہش ہے کہ گارا ہو جائے
بد دعا مانگنے والے کی د عا کے صدقے
ہر برا آدمی اللہ کو پیارا ہو جائے
رزق تو خیر مری ثانوی ترجیح رہا
عشق بھی اتنا کمایا کہ گزارا ہو جائے

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے