کہاں آکے رُکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اُسے بھول جا



کہاں آکے رُکنے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا ، اُسے بھول جا 

وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دلِ بے خبر مری بات سُن اُسے بھول جا ، اُسے بُھول جا 

میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں ، ترِی آس ، تیرے گُمان میں

صبا کہ گئی مرے کان میں ، میرے ساتھ آ ، اُسے بُھول جا 

کسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم ، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم 

تجھے زندگی نے بُھلا دیا ، تو بھی مسکرا ، اُسے بُھول جا

کہیں چاکِ جاں کا رَفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں

کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خُوں بہا ، اُسے بُھول جا 

کیوں اَٹا ہوا ہے غُبار میں ، غمِ زندگی کے فشار میں

وہ جو درج تھا ترے بخت میں ، سو وہ ہو گیا ، اُسے بُھول جا 

نہ وُہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی ، ، نہ وُہ خُواب ہی ترا خُواب تھا

دلِ منتظر تو یہ کس لئے ترا جاگنا ، اُسے بُھول جا 

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا ، اسے دیکھ ، اس پہ یقیں نہ کر

نہیں عکس کوئی بھی مُستقل سرِ آئینہ ، اُسے بُھول جا 

جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا

اُسے روکنے سے حصول کیا ، اُسے مت بُلا ، اسے بُھول جا 

تو یہ کس لئے شبِ ہجر کے اُسے ہر ستارے میں دیکھنا

وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم ، کوئی اور تھا ، اُسے بُھول جا تجھے

چاند بن کے ملا تھا جو ، ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو

وہ تھا اک دریا وصال کا ، سو اُتر گیا اُسے بُھول جا

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے