ہمارے لیڈروں اور انکے آباؤ اجداد کی اصلیت !


ہمارے لیڈروں اور انکے آباؤ اجداد کی اصلیت !

10 جون.....1857....... جنگِ آزادی زوروں پر تھی ....!!!!!
ملتان گیریزن....ڈھز .... ڈھز ... ڈھز ....!!!!
موتی لال صبح سویرے صاحب کےلیے چائے بنا رہا تھا......اس کی آنکھیں چولھے پر دھری کیتل پر اور کان صاحب بہادر کے دفتر کی طرف لگے تھے........
موتی ہر خبر پر نظر رکھنے والا چینل تھا.....پوری پلٹن میں پروموشن سے لےکر تعیناتی تک ہر خبر پہلے وہی بریک کرتا ..........ابھی چائے نے ابال نہیں کھایا تھا کہ ایک تار برقی نے دفتر میں ابال پیدا کر دیا.....
ٹرن ٹریچ ٹریچ ..... ٹرن ٹریچ ٹریچ .... ٹرن .... !!!!!
میجر براؤن نے تار وصول کرتے ہی کرنل ہیملٹن کو وائرلیس پر اطلاع دی-
" سر ارجنٹ میسیج فرام امبالہ .... ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی ہے - تمام گریژن اپنی اپنی پلٹن کی شناخت پریڈ کر کے مشتبہ ھندوستانی غدّاروں کو ٹھکانے لگائیں......"
چائے کی پیالی موتی کے ہاتھ سے گرتے گرتے بچی.....!!!!
صبح 7 بجے اس فیکس پر فوری عمل درامد شروع ہو گیا- پلاٹون نمبر 62 سے ہتھیار واپس لےکر اسے گیریزن گراؤنڈ میں فالن کیا گیا....اس پلاٹون میں زیادہ تر مسلمان اور ھندو تھے.......دو گھنٹے مسلسل کھڑا رکھنے کے بعد کرنل ہیملٹن تشریف لائے-
"ٹُم میں اگر کوئ ٹریٹر ہے ... غدار ہے .... تو خود باہر آجائے"
سب لوگ دم سادھے خاموش کھڑے رہے.....اس کے بعد ایک ایک سپاہی کی مکمل شناخت پریڈ ہوئ.........اور دس مشتبہ سپاہی الگ کر دیے گئے........میدان کے ایک طرف توپیں نصب کی گئیں.....ان سپاہیوں کی مشقیں کس کر انہیں توپوں کے آگے باندھا گیا.... اور توپ کو مشعل دکھا دی گئ......
ڈھز .... ڈھز ....ڈھز ...!!!!!
دس بے گناہوں کے چیتھڑے اڑانے کے بعد کرنل ہیملٹن ایک بار پھر پلاٹون کے سامنے آیا اور وارننگ دی کہ آئیندہ جس سپاہی پر ذرا برابر شک ہوا.....اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا.....
پلاٹون 62 کے جوانوں کا باہر جانا بند کر دیا گیا.....ان کو مخصوص قسم کا کھدر کا لباس پہنا دیا گیا....جو کسی کو بڑا تھا...کسی کو چھوٹا...خط و کتابت پر پابندی لگادی گئ....یہ سارا دن چپ چاپ بیٹھے رہتے اور ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بات چیت تک نہ کرتے.......
ایک دن صبح پو پھٹنے سے پہلے موتی لال بھاگا بھاگا آیا....اور بیرک کی کھڑکی سے جھانک کر صدا لگائ...." انبالا سے پھر تار آئ ہے....رام رام کرو جی......"
یہ سنتے ہی نماز پڑھتے سپاہیوں نے سلام پھیر دیا.....اور چلائے " انبالے سے تار آگئ ہے....بھائیو......نکلو.......بھاگو ..... ورنہ اڑا دیے جاؤ گے....."
پھر کیا تھا....بیرکس میں کھلبلی مچ گئ......گیریزن کے دروازے پر گارڈ تھی.....کچھ مشرقی دیوار سے کودے.....کچھ چھوٹے گیٹ کی طرف لپکے.......کیپٹن آرتھر کی ڈیوٹی تھی....وہ باہر بھاگا....سنتریوں کو الرٹ کیا....انہوں نے فائر سیدھا کیا.....کچھ مرے....کچھ زخمی ہوئے .... اور کچھ بھاگ گئے......
کرنل ہیملٹن نے فی الفور باغیوں کا پیچھا کرنے کا حکم دیا.....شہر بھر میں نقارہ بجا دیا گیا کہ جو باغی کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے بیس روپے انعام دیا جائے گا.....
اس غیر مسلح بغاوت کی اطلاع درگاہ بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی (اوّل) کو ملی تو عشق فرنگی جاگ اٹھا.......مخدوم اپنے مریدوں کی فوج لے کر نکلا اور نہتے مجاہدین کو شہر اور چھا ؤنی کے درمیان پل شوالہ پر جا گھیرا...پیچھے انگریز تھا.....اور آگے مخدوم...... تین سو کے لگ بھگ نہتے سپاہیوں کو تاک تاک کر قتل کیا گیا-
کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے مریدوں کے ہمراہ جا گھیرا اور مرغابیوں کی طرع ان کا شکارکیا۔ سپاہیوں نے جان بچانے کےلئے دریا میں چھلانگیں لگادیں۔ کچھ ڈوب گئے اور کچھ پار لگنے میں کامیاب ہوئے۔ دوسرے کنارے پر سیّد سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلال پور پیروالہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے ان کا شکار کیا......
سپاہیوں کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگریال، ہراج، سرگانہ، ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر قتل کیا۔ مہرشاہ کو اس قتل عام میں فی سپاہی قتل کرنے پر بیس روپے نقد اور ایک مربع اراضی عطا کی گئی۔
مخدوم شاہ محمود قریشی (اوّل) کو مجاھدین کے کامیاب شکار کے صلے میں صاحب بہادر نے مالامال کر دیا..... مبلغ تین ہزار روپے نقد ...جو آج کے حساب سے تین کروڑ بنتے ہیں.....اس کے علاوہ جاگیر......ایک ہزار سات سو اسّی روپے سالانہ وظیفہ.....اور آٹھ کنویں.... جن کی سالانہ آمدنی ساڑھے پانچ سو روپے تھی تاحیات عطا کیے گئے.... 1860ء میں وائسرائے ہند نے بیگی والا باغ عطا کیا۔جس کے میٹھے آم آج بھی ملکہء برطانیہ کو تحفتاً بھیجے جاتے ہیں..
مخدوم آف شیر شاہ کو بھی وسیع جاگیر عطا کی گئی۔جسے آج بھی اس کی نسلیں کھا رہی ہیں...
کون کہتا ہے ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی ؟؟
آزادی انگریز نے حاصل کی ... ہم سے .... اور مخدوم دولتانے ٹوانے ہمارے سروں پر بٹھا کر آج سات سمندر پار آزادی کے مزے لُوٹ رہا ہے-
اور ہم بے وقوف آج بھی اپنے نئے آقاؤں کی الیکشن کمپینز چلا رہے ہیں ... !!!!
(ماخوذ از دِلّی کے شعلے ... ظفرجی)

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے