شائد مرے بدن کی رُسوائی چاہتا ہے
دروازہ میرے گھر کا ، بینائی چاہتا ہے
اوقاتِ ضبط اس کو اے چشمِ تر بتا دے
یہ دل سمندروں کی گہرائی چاہتا ہے
شہروں میں وہ گھٹن ہے،اس دور میں کہ انساں
گمنام جنگلوں کی پُروائی چاہتا ہے
کچھ زلزلے سمو کر زنجیر کی کھنک میں
اِک رقصِ والہانہ سودائی چاہتا ہے
کچھ اس لیے بھی اپنے چرچے ہیں شہر بھر میں
اک پارسا ہماری رسوائی چاہتا ہے
ہر شخص کی جبیں پر کرتے ہیں رقص تارے
ہر شخص زندگی کی رعنائی چاہتا ہے
اب چھوڑ ساتھ میرا اے یادِ نوجوانی
اِس عمر کا مسافر تنہائی چاہتا ہے
میں جب قتیل اپنا سب کُچھ لُٹا چُکا ہوں
اب میرا پیار مُجھ سے دانائی چاہتا ہے
اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے
اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے کچھ پا کر کھونا ھے ، کچھ کھو کر پانا ھے جیون کا مطلب تو ، آنا اور جانا ھے دو پل کے جیون سے ، اک عمر چرانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے تو دھار ہے ندیا کی ، میں تیرا کنارا ھوں تو میرا سہارا ھے ، میں تیرا سہارا ھوں آنکھوں میں سمندر ھے ، آشاؤں کا پانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے طوفان تو آنا ھے ، آ کر چلے جانا ھے بادل ھے یہ کچھ پَل کا ، چھا کر ڈھل جانا ھے پرچھائیاں رہ جاتیں ، رہ جاتی نشانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے جو دل کو تسلی دے، وہ ساز اٹھا لاؤ دم گُھٹنے سے پہلے ھی ، آواز اٹھا لاؤ خوشیوں کا ترنم ھے ، اشکوں کی زبانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ھے "سنتوش آنند"
Comments
Post a Comment