شائد مرے بدن کی رُسوائی چاہتا ہے دروازہ میرے گھر کا ، بینائی چاہتا ہے اوقاتِ ضبط اس کو اے چشمِ تر بتا دے یہ دل سمندروں کی گہرائی چاہتا ہے شہروں میں وہ گھٹن ہے،اس دور میں کہ انساں گمنام جنگلوں کی پُروائی چاہتا ہے کچھ زلزلے سمو کر زنجیر کی کھنک میں اِک رقصِ والہانہ سودائی چاہتا ہے کچھ اس لیے بھی اپنے چرچے ہیں شہر بھر میں اک پارسا ہماری رسوائی چاہتا ہے ہر شخص کی جبیں پر کرتے ہیں رقص تارے ہر شخص زندگی کی رعنائی چاہتا ہے اب چھوڑ ساتھ میرا اے یادِ نوجوانی اِس عمر کا مسافر تنہائی چاہتا ہے میں جب قتیل اپنا سب کُچھ لُٹا چُکا ہوں اب میرا پیار مُجھ سے دانائی چاہتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے