’’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘‘

بادشاہ نے ایک درویش سے کہا ۔۔۔’’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘‘ درویش نے اپنا کشکول آگےبڑھا دیا اور عاجزی سے بولا ۔۔حضور ! صرف میرا کشکول بھر دیں ۔۔۔ ’’بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتار ے ،انگوٹھیاں اتاریں ،جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم ۔۔۔ لہٰذا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا ۔۔۔ انچارج ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا، بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا گیا ۔۔ ۔یہاں تک کہ تمام جوہرات غائب ہو گئے ۔۔ بادشاہ کو بے عزتی کا احساس ہوا اس نے خزا نے کے منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔ ۔خزانے کے بعد وزار کی باری آئی ۔ اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی ، لیکن کشکول خالی کا خالی رہا ۔ ایک ایک کر کے سار ا شہر خالی ہو گیا لیکن کشکول خالی ۔۔۔ آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا ۔۔۔درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹایا ، مسکرایا ، سلام کیا اور واپس مڑ گیا ۔ بادشاہ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔۔۔’’حضور! مجھے صرف اتنا بتا دیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے؟
‘‘ درویش مسکرایا اور کہا ۔۔۔’’ اے ناداں ! یہ #شریف_خاندان کا کشکول ہے، جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے 😅

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے