نصیحت کا انداز


نصیحت کا انداز........
خلیفہ ہارون الرشید تقریباً چھبیس لاکھ مربع میل کا حکمران تھا۔ ایران، روم، افغانستان، آذربائیجان، آرمینیا، چین تک اس کی حکمرانی تھی۔ بڑا زیرک آدمی تھا۔ خلفائے راشدین کا تو مقابلہ نہیں کیونکہ خلافت کا مقام بہت بلند ہے البتہ آج کل کے حکمرانوں کے مقابلے میں بہت ہی نیک اور پارسا تھا۔ جمعہ کی نماز باقاعدہ آ کر مسجد میں پڑھتا اور خطیب کی تقریر بھی مکمل سنتا تھا۔ ان کے خطیب صاحب نے ایک واعظ کے متعلق سن رکھا تھا کہ وہ بڑا بہترین وعظ کہتے ہیں اور لوگوں پر اس کا بڑا اثر ہوتا ہے اور بہت فائدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس واعظ نے خطیب صاحب کو کہا کہ آججمعہ میں نے پڑھانا ہے، مجھے موقع دو۔ خطیب صاحب نے کہا اچھا جی! آج آپ جمعہ پڑھا لیں۔ خلیفہ ہارون الرشید سامنے آکر بیٹھ گیا، واعظ نے بیان شروع کیا اور تھا بڑا کرخت مزاج، کہنے لگا اے ہارون الرشید! تم بڑے فاسق و فاجر آدمی ہو، تم نے فلاںموقع پر یہ کیا اور فلاں موقع پر یہ کیا۔ اس کے عیب گن گن کر بتانے شروع کئے۔ خطیب صاحب بے چارے اس کا پائنچہ کھینچیںکہ بس کر مگر وہ اور تیز اور جوش میں آئے۔ پائنچہ کھینچنے کامطلب ہوتا ہے کہ بس کر اور بعض جان چھڑانے کیلئے جزاک اللہ کہتے ہیں۔ مگر وہ خوش ہوتا کہ میری تقریر کو پسند کر رہے ہیں۔ تو خیر وہ باز نہ آیا، خطیب پریشان ہو گیا کہ اس نے بڑا ظلم کیا ہے۔ اب لوگوں کا خیال تھا کہ خلیفہ اس کو قتل کرائے گا کہ اتنی بڑی پبلک کے سامنے نام لے کر کہا ہے کہ تم ایسے ہو تمویسے ہو۔ خیر جمعہ کی نماز ہو گئی، خلیفہ بھی نماز پڑھ کر چلاگیا، پولیس آئی اور اس واعظ کو لے گئی۔ ہارون الرشید نے اس کو اپنے سامنے والی کرسی پر بٹھایا اور شربت وغیرہ سے تواضع کی اور پوچھا کہ حضرت! یہ بتلائیں کہ آپ کا رتبہ زیادہ ہے یا موسٰیؑ اور ہارونؑ کا؟ واعظ نے کہا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ خلیفہ نےکہا جب کوئی عقل مند بات کرتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مطلب ہوتا ہے۔ آپ بتلائیں کہ آپ کا رتبہ زیادہ ہے یا موسٰیؑ اور ہارونؑ کا؟ واعظ کہنے لگا کہ میں تو گنہگار امتی ہوں وہ تو خدا کے پیغمبر تھے۔چہ نسبت خاک را با عالم پاکان بلند مرتبہ ہستیوں کے ساتھ میری کیا نسبت ہے؟ خلیفہ صاحب نےدوسرا سوال کیا کہ یہ بتاؤکہ میں زیادہ برا ہوں یا فرعون زیادہ برا تھا؟ اس نے پھر کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ خلیفہ نے کہا اس کا کچھ نہ کچھ مطلب تو ہو گا، آپ جواب دیں۔ واعظ نے کہا آپ آخر امتی ہیں، گنہگار سہی وہ تو اللہ تعالیٰ کا باغی اور سرکش تھا۔ خلیفہ نے کہا فرعون مجھ سے برا تھا نا؟ اس نے کہا ہاں! تو ہاروں الرشید نے کہا دیکھو! رب تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے مو سٰیؑ اور ہارونؑ کو کہ جب تم فرعون کے پاس جاؤ توبات نرمی کے ساتھ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بہتر شخصیات کومجھ سے بدتر شخصیت کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ بات نرمی کے ساتھ کرنا۔ آپ نے جو وعظ کیا ہے وہ قرآن پاک کے خلاف کیا ہے۔ لوگوں کو نرمی کے ساتھ سمجھانا ہوتا ہے، طعنے دینا تو وعظ نہیں ہوتا۔ آپ نے جتنے عیب میرے بتلائے ہیں وہ تو بہت کم ہیں، میں تو عیبوں کا گھر ہوں، میرے اندر عیب بہت زیادہ ہیں لیکنآپ کا جو تعلیم اور تبلیغ کا طریقہ ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ پھر ہارون الرشید نے اپنے منشی کو بلا کر فرمایا کہ اس کو ایک جوڑا کپڑوں کا اور دس ہزار درہم انعام دے دو حق گوئی کا، لیکن وعظ کا یہ طریقہ lصحیح نہیں ہے)الاخباروالقصص...🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸 سوچھئے کہ کیا میں ...ہم...صحیح ہے یا ..........بس دعا کی درخواست کرتی ھوں..

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے