اسلام علیکم



اسلام علیکم
اے جی آفس ......(.شہر کا نام۔)
ایک دوست کی سچی آپ بیتی!
چاچا ! فائل میں پہیے لگیں گے تو فائل آگے جائے گی نا !!!!
بیٹا ! میں پہیے نہیں لگا سکتا یہ حرام ہے ۔۔۔۔اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں
تو چاچا جی !آپ کی فائل آگے کیسے جائے گی؟ فائل آگے لے جانی ہے توپہیے لگانے ہوں گے ۔
ایسا ہے آپ کمرے کے باہر بیٹھو صاحب آئیں گے تو مل لینا اب میرا وقت خراب نہیں کرو
چا چا آفس کے باہر بینچ پر بیٹھ گئے
ہاہاہا۔۔۔۔میں نےبڑے میاں کو آفس سے باہر بٹھا کر قہقہہ لگایا
بڑے میاں کا ایک سرکاری کام تھا کام بھی بالکل جائز تھا مگر اے جی آفس کا اپنا ایک اصول ہے بغیر مال کے کام نہیں کرنا ۔۔۔۔۔لوگ رشوت دے کر یہاں اپنی پوسٹنگ کرواتے ہیں ۔۔۔۔۔پھر مال بناتے ہیں ،اب بھلا یہ بات بڑے میاں کو کون بتائے ۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے سوچا ۔
ٹرن ٹرن ٹرن ۔۔۔۔۔۔فون کی گھنٹی مجھے میری سوچوں سے واپس اسی دنیا میں کھینچ لائی میرا موبائل فون بج رہا تھا
بات سُنیے ! آپ فوراً ،کے کے ہسپتال پہنچیے :میری بیوی کی انتہائی پریشان آواز نے مجھے حواس باختہ کر دیا ۔
میں نے کام کو ایک طرف رکھاجلدی سے رکشہ پکڑا اور فورا ً ہسپتال پہنچا
میرے بیٹے کا شدید ایکسڈینٹ ہو اتھا ایمرجنسی میں موجو د ڈاکٹر سے میری بیوی روتے ہوئے منت سماجت کررہی تھی کہ میرے بیٹے کو دیکھ لو اور عملہ کہہ رہا تھا پہلے ایک لاکھ روپے جمع کرائیے اس سے پہلے ڈاکٹر ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے ۔
میں نے ڈاکٹر سے کہا: پلیز! آپ میرے بیٹے کو دیکھ تو لیجیے میں ایک لاکھ نہیں دو لاکھ جمع کرا دوں گا
جتنی دیر آپ بات کرنے میں وقت ضائع کررہے ہیں اتنی دیر میں تو آپ پیسوں کا انتظام کر لیتے ۔ ڈاکٹر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا
میں جیسے تیسے بینک پہنچا فورا ایک لاکھ روپے لیے اور واپس ہسپتال پہنچا تو میرا بیٹا اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پا س آنسوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔۔۔۔میں چیخنا چاہتا تھا اس ظالم نظام کے خلاف مگر میری آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی ۔
بیٹے کے صدمے نے بیوی کو پلنگ سے لگا دیا ۔۔۔۔
پیسے جمع کر کے پلاٹ لیا تھا معلوم ہوا وہ فرا ڈ تھا اور وہ کمپنی پیسے لے کر بھاگ گئی ہے میں ایک مرتبہ پھر کرائے کے مکان میں ہی رہنے پر مجبور تھا۔۔۔بیٹی کی شادی کی تھی کچھ دنوں بعد ہی اس کو طلاق ہو گئی ۔۔۔۔ ۔ چھوٹا بیٹا نشے کی لت میں گرفتار ہو چکا تھا ،مسائل تھے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔
میری رشوت کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا تھا جس تیزی سے میری اوپر کی آمدنی بڑھ رہی تھی اسی طرح میرے مسائل میں بھی اضافہ ہورہا تھا
میں تھک گیا تھا مسائل سے لڑتے لڑتے
آخر میرا ایک دوست مجھے ایک بزرگ کے پاس لے گیا تاکہ میں ان سے تعویذ لے سکوں
بزرگ نے مجھ پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا : پریشانیاں تو خود خریدتے ہو اور پریشان کرنے ہمیں آجاتے ہو
میں حیران رہ گیا میں نے عرض کی : بابا جی ! پریشانیاں کون خریدنا چاہتا ہے ؟
حق دار وں کو اس وقت تک حق نہیں دیتے جب تک فائل میں پہیے نہ لگیں؟
بابا جی کے انکشاف نے میرے پیروں تلے زمین نکال دی تھی
یاد رکھنا ! جب تم کسی کو پریشان کرتے ہو تو دراصل تم اسے پریشان نہیں کرتے بلکہ اس کو پریشان کرکے اس کی اصل پریشانی کو اپنے گلے میں باندھ رہے ہوتے ہو
لوگوں کے خاندان ان سے وابستہ ہوتے ہیں جب تمہیں انہیں پریشان کرتے ہو تو ان کی آنے والی پریشانی تمہارے اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی ہے اور اس کی قیمت تم ادا کرتے ہو۔
جاؤ ! اور اس بوڑھے سے معافی مانگو جس کاجائز کام تم نے ایک طویل عرصے سے محض رشوت نہ دینے کے جرم میں روک رکھا ہے
تمہاری ساری پریشانیاں وہ ہیں جو تم نے خود خریدی ہیں
رشوت لینا اور لوگوں کو تنگ کرنا چھوڑ دو تمہارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے تمہیں تعویذ کی ضرورت نہیں ہے
تم اصل میں خود پریشانیوں اور مسائل کے خریدار ہو ۔۔۔۔بابا جی کے الفاظ میرے کان میں گونج رہے تھے اور آفس کے باہر بینچ پہ بیٹھے ہوئے بوڑھے کی پریشان کن تصویر بار بار میری نگاہوں میں گھوم رہی تھی ۔۔۔۔
میں فوراً آفس پہنچا سب سے پہلے ان کا کام کیا ۔۔۔۔آئندہ رشوت لینے سے توبہ کی کچھ دن مالی پریشانی محسوس ہوئی پر اب بہت مطمئن ہوں بیٹی کی شادی ایک اچھی جگہ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ بیوی صدمے سے باہر آگئی ۔۔۔بیٹے کا علاج کرایا دیگر مسائل بھی ختم ہوتے چلے گئے اب ایک مطمئن زندگی گزار رہا ہوں
بابا جی کے الفاظ
: ’’تم خود پریشانیوں کے خریدار ہو ‘‘ نے میری زندگی بدل دی.اس پوسٹ کو جتنا ہو سکے شئیر کریں تاکہ مصیبتوں کے شکار ،دلی اور روحانی سکون سے محروم رشوت خوروں کی ہدایت کا سبب بنے.

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے