بہت گھومی جہاں بھر میں

بہت گھومی جہاں بھر میں
مجھے آوارگی لے کر
کبھی سحرا'سمندر میں‌
کبھی دنیا کے میلوں‌ میں
کبھی جنگل میں‌ بھٹکایا
عجب وحشت لہو میں‌تھی
نظر بھی جستجو میں تھی
کئی چہرے تھے آنکھوں‌میں
انہی چہروں‌ کی خواہش میں‌
ہر ایک منزل کو ٹھکرایا
سکوں پھر بھی نہیں‌آیا
بہت گھوما جہاں‌ بھر میں‌
تو پھر آخر کھلا مجھ پر
وہ جس کو چھوڑ آیا تھا
میں‌ اپنے ہجر میں‌ جلتا
وہی سچی محبت تھی
اسی کی یاد کے موتی
بنے جیون کا سرمایہ
محبت آخری منزل
محبت آخری سایہ ۔۔۔!!!

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے