عورت اور مرد کی عزت کا فرق

عورت اور مرد کی عزت کا فرق.....
ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو آج کل ایک نیا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اس سبق کے ذریعے ان میں یہ سوچ پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ ”عزت“ کو ان سے منسوب کرکے دراصل ان کے لیے ایک بیڑی بنا دیا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ لڑکا منہ کالا کرلے تو اس سے خاندان کی عزت کو فرق نہیں پڑتا لیکن لڑکی اگر کسی کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو خاندان کی عزت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ انہیں فریب دینے والوں کی واردات دیکھیے کہ اس بکواس کے ذریعے ہماری بچیوں کو کوئی حق نہیں دلایا جا رہا بلکہ مرد سے عزت کی نیلامی میں ہمسری کروائی جانی مقصود ہے۔ کہ اگر مرد منہ کالا کرتا ہے اور اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تو خاتون کو بھی منہ کالا کرنے کی آزادی دی جائے اور ایسا ہونے پر عزت کی رٹ نہ لگائی جائے۔ یعنی اگر مرد بےغیرت ہے تو عورت کو بھی بےغیرت ہونا چاہیے اور یہ فریب انھیں دے وہی مرد رہا ہے جو روز ان کے شکار کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ لبرل مرد !
چلیے میں سمجھاتا ہوں کہ خاندان کی عزت عورت سے ہی کیوں داؤ پر لگتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری بچیوں کو یہ بات سمجھ آگئی تو وہ اپنے رب کے آگے سجدہ شکر بجا لائیں گی۔ سب سے بنیادی اور کلیدی فرق مرد اور عورت کی عزت کی ”نوعیت“ کا ہے۔ مرد بالغ ہوتے ہی عزت سے سرفراز نہیں ہوتا، بلوغ بھی چھوڑیے وہ بیس سال کا ہو کر بھی ”عزت دار“ نہیں ہوتا، آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ فلاں نوجوان کی بڑی عزت ہے۔ ہر مرد بیس سے پچیس سال کی عمر میں جا کر اپنے لیے عزت کمانی شروع کرتا ہے اور پچیس سے تیس سال تک عملی زندگی کے رگڑے کھانے کے بعد پہلی بار اس میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں نے تھوڑی سی عزت ”کما“ لی ہے، اس عزت کے لیے اس نے پچیس تیس سال کے دوران درجنوں لوگوں کی سینکڑوں بار بک بک سہی ہوتی ہے۔ سینئرز نے اسے بات بےبات کھری کھری سنائی ہوتی ہیں۔ کبھی وہ معطل کیا گیا ہوتا ہے تو کبھی برطرفی کے عذاب سے گزرا ہوتا ہے۔ دفتری سازشوں کا مقابلہ کرتے کرتے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکا ہوتا ہے، اور اس پوری جدوجہد کے بعد کمائی گئی عزت کی اوقات یہ ہوتی ہے کہ آپ کوئی ایک شریف مرد بھی ایسا نہیں دکھا سکتے جس کی عزت ”متنازع“ نہ ہو۔ ہر شریف مرد کو اگر دس لوگ عزت دار سمجھتے ہوں گے تو دس ایسے بھی ہوں گے جو اس کی عزت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ مولانا طارق جمیل یا ڈاکٹر عبد القدیر خان سے زیادہ شریف آدمی کہاں سے لا کر دکھاؤں؟ انصاف سے بتائیے ان پر تبرا کرنے والے موجود ہیں کہ نہیں؟
اس کے برخلاف عورت جیسے ہی بالغ ہوتی ہے تو آٹومیٹک طور پر عزت سے سرفراز ہو جاتی ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہیں جو اسے یہ تحفہ خاص عطاء کرتے ہیں۔ عورت پروفیشنل لائف میں کتنے ہی کارنامے کیوں نہ کرلے اس کی عزت ”کمائی“ نہیں بنتی بلکہ عطیہ الہی ہی رہتی ہے۔ آپ نے کسی کو بھی یہ کہتے نہ سنا ہوگا کہ فلاں عورت نے ماشاءاللہ بڑی عزت کمائی ہے۔ اس کی پروفیشنل خدمات اس کا معاشرے میں مقام متعین کرتی ہیں، عزت تو اس کو من جانب اللہ ہی میسر ہے۔ اور اس عزت کا وزن دیکھیے کہ اگر ستر سال کے بڑے میاں کسی 20سال کے لڑکے کو پکارتے ہوئے کہ دیں ”اے لڑکے!“ تو کوئی حیران نہیں ہوتا بلکہ وہ لڑکا دوڑتا ہوا ”جی انکل!“ کہتا قریب آجائے گا لیکن یہی بڑے میاں کسی 20 برس کی لڑکی کو ”اے لڑکی!“ کہہ کر پکار دیں تو لوگ بڑے میاں کو گھورنا شروع کردیں گے کیونکہ بچیوں کا احترام بڑوں پر بھی لازم ہے۔ ایک اہم ترین چیز یہ بھی قابل غور ہے کہ ہم سب”خواتین کی عزت“ تو سنتے ہیں لیکن کیا کسی نے ”مردوں کی عزت“ بھی کبھی سنا؟ فرق یہ ہے کہ خواتین کو عزت ان کی ”ذات“ کی بنیاد پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بلاتفریق دے رکھی ہے جبکہ مرد کو ذات کی بنیاد پر کوئی عزت میسر نہیں، اسے اگر عزت چاہیے تو وہ اسے اپنی محنت سے کمانی پڑے گی اور اگر یہ نہیں کر سکتا تو ایک کمتر درجے کی عزت اسے یہ مل جائے گی کہ چھوٹوں کو تہذیب میں رکھنے کے لیے بڑوں کی عزت کے درس کے سبب اسے بڑا ہونے کی عزت ملتی رہے گی۔
عورت کے سوا ذات کی بنیاد پر عزت صرف دو ہستیوں کی ہے جن میں سے پہلی ہستی خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہیں اور دوسری انبیاء علیھم السلام۔ اور یہ ذات کی بنیاد پر من جانب اللہ ملنے والی عزت کا ہی کرشمہ ہے کہ جب عورت اس عزت کی ناقدری کر دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ عزت خدانخواستہ چھن جائے تو یہ واقعہ ”سانحہ“ بن جاتا ہے، وہ سانحہ جو پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ہماری بچیوں کو یہ راز سمجھنا ہوگا کہ ان کی عزت وہ عزت ہے ہی نہیں جو مرد کے پاس ہوتی ہے۔ مرد کی عزت فقط ایک ”کمائی“ ہے جبکہ عورت کی عزت وہ تحفہ خداوندی ہے جو مسلمان عورت کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے دست مبارک سے عطا کر رکھا ہے۔ آپ تاریخ تو اٹھا کر دیکھیں، ابھی دو چار سو سال قبل تک مغربی عورت کے انسان ہونے پر بھی اہل مغرب میں اختلاف تھا، اس کا عزت دار ہونا تو دور کی بات ہے۔ کبھی بڑے بڑے نامور فلسفیوں کے خواتین کے متعلق اقوال نکال کر پڑھیں، آپ کے کان گرم ہو جائیں گے۔ چونکہ مرد کی عزت ایک ”کمائی“ ہے، اس لیے اس کے ضائع ہونے پر دوبارہ کمائے جا سکنے کی آپشن موجود ہے لیکن عورت کی عزت تحفہ خداوندی ہے اس لیے ناقدری پر اگر یہ ایک بار چلی جائے تو بس پھر ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے لہذا ہماری بچیوں کو اس تحفے کی خصوصی دیکھ بھال کرنی ہوگی اور بہت احتیاط کرنی ہوگی۔ آپ کی عزت کمائی نہیں انمول ہے اور یہ اس کے انمول ہونے کی ہی دلیل ہے کہ ہر شریف عورت کی عزت ”غیر متنازعہ“ ہے۔ آپ ایسی شریف عورت نہیں دکھا سکتے جس کی عزت کے دس افراد قائل ہوں اور دس انکاری ہوں۔ جوں ہی کوئی ایک انسان بھی کسی شریف عورت کی عزت پر انگلی اٹھاتا ہے معاشرہ اس پر سخت ردعمل دیتا ہے اور یہ ردعمل خدائی نظام ہے جو اس نے اپنے دیے ہوئے تحفے کی حفاظت کے لیے قائم فرما رکھا ہے.

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے