پھر ذکرِ زلف و کاکلِ شب گوں کروں ہوں میں






پھر ذکرِ زلف و کاکلِ شب گوں کروں ہوں میں
افسانہ چھیڑتا ہوں کہ افسوں کروں ہوں میں
تا آئے کچھ بہار کے چہرے پہ آج رنگ
صحنِ چمن میں جا کے جگر خُوں کروں ہوں میں

حُسنِ بیاں یہ لطفِ زباں غیر میں کہاں؟
تیرے لبوں سے مصرعے موزوں کروں ہوں میں
یوسفؑ ہوں اور مجھ کو برادر عزیز ہیں
پیغمبری یہی ہے کہ ممنوں کروں ہوں میں
ان بے حقیقتوں سے کہوں بھی تو کیا کہوں؟
یہ بھی کرم سمجھ کہ جو ہُوں ہُوں کروں ہوں میں
مجھ سے خدا ہی خوش ہے نہ راضی صنم ہوئے
میں دل کا بادشاہ جو چاہوں کروں ہوں میں
دیتا ہوں دلبروں کو ہزاروں طرح فریب
کیا کیا تلاش دیکھ تو مضموں کروں ہوں میں
کیوں کر نہ مجھ سے دار و رسن کی ہو آبرو
وہ حق پرست ہوں کہ جو کہہ دوں کروں ہوں میں
آئینہء جمال مری خاک ہے مجھے
میں اور نگاہ جانبِ گردوں کروں ہوں میں!!
طاہرؔ گدائے کوئے نگارانِ جھنگ ہوں
انکارِ فیض و لطفِ ہمایوں کروں ہوں میں

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے