خالص عطائے رب ہے، نہادہ نہیں ہے خاک






خالص عطائے رب ہے، نہادہ نہیں ہے خاک
بکھری ہوئی ضرور ہے، سادہ نہیں ہے خاک
مقتل کی سمت، سوچ سمجھ کر گیا تھا میں
سر پر مرے، بغیرِ ارادہ نہیں ہے خاک
بھرتا نہیں کبھی جو یہ زخمِ عزائے عشق
شائد بدن میں خوں سے زیادہ نہیں ہے خاک
نشّے سے کہہ رہا ہے مرا ساغرِ سفال
دیکھا! حریفِ آتشِ بادہ نہیں ہے خاک
آغوش میں سمیٹ سکے گی مرا وجود
صحرائے نیست، ایسی کشادہ نہیں ہے خاک
کب اہلِ جستجو کا مصلّیٰ نہیں زمیں
کب اہلِ انکشاف کا جادہ نہیں ہے خاک
شہہ مات ہو سکے اسے شاہِ نَبُود سے
سُن لے بساطِ بُود، پیادہ نہیں ہے خاک
ابتک صفاتِ عجز میں کامل نہیں فقیر
ابتک مرے بدن کا لبادہ نہیں ہے خاک

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے