میں کیسی ہوں
سبهی پُوچهتے رہتے ، کیوں مُجھ سے
میں کیسی ہوں
میں کیسے ان کو بتلاؤں ، کبهی تو
مُجھ میں رعنائی دهڑکتی ہے
اُداسی شام کی ، مُجھ سے
گلے مِل کر تڑپتی ہے
مِرے لفظوں میں غم
پرچھائیاں بن کر اُترتے ہیں
شکستہ خواب ڈهل کر
میرے اَشکوں میں اُترتے ہیں
مِرے جذبوں کی سچائی
مُجهے اکثر رُلاتی ہے
اُداسی بهی مِری آنکھوں کے
گوشوں پر مچلتی ہے
کبهی تو میری آنکھوں میں
خوشی کے دیپ جلتے ہیں
کبهی میرے لبوں پر اِک
حسیں مُسکان ہوتی ہے
انوکهے گیت ہوتے ہیں
کبهی یونہی ، اچانک چُپ سی
لگ جاتی ہے ، کیوں! مُجھکو
کسی سے بات کرنے کو
میں آمادہ نہیں ہوتی
کبهی سادہ سے لفظوں میں ، بڑا اظہار کر جاؤں
کبهی خود اپنے لفظوں میں
اُلجھ کر میں ہی رہ جاؤں


کبهی میں ٹوٹ کر بکھروں
کبهی خود میں سمٹ جاؤں
کبهی میں بے تحاشا بے وجہ
ہی ہنس پڑوں ، !
کبهی بے بات ہی رودوں
کبهی انجان راہوں پر
اکیلے ہی نکل جاؤں
کبهی منزل کو پا کر بهی
میں خود منزل کو ٹهکراوں
بهلا کیا روپ ہے ، میرا
یہ کیسے میں بتلاؤں
میں کیسی ہوں

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے