ندا فاضلی کا ایک شعر ہے جو دین بیزاروں کو بڑا مرغوب ہے وہ یوں کہ






ندا فاضلی کا ایک شعر ہے جو دین بیزاروں کو بڑا مرغوب ہے وہ یوں کہ ...
.
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یو کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضلی کے شعر کو عرفان خالد نے اپنی طرز پر سوچا
گھر سے مسجد ہے اگر دور تو پھر یوں کر لو
کسی ركشہ، کسی ٹم ٹم کی سواری لے لو
کوئی ٹانگہ ہی پکڑ لو ، کوئی لاری لے لو
فاصلہ گر ہو کئی میل خدا کے گھر کا
آمد و رفت کی قیمت بھی تو دے سکتے ہو
سائیکل کوئی کرائے پہ بھی لے سکتے ہو
میکدے کے لئے جب گھر سے نکل سکتے ہو
ایک بوتل کی توقع پہ بہل سکتے ہو
’’تم چراغوں کی طرح شام سے جل سکتے ہو‘‘
تم کو مسجد کی طرف پاؤں بڑھانے میں ہے عذر
جام ومینا کے لئے آگ پہ جل سکتے ہو
پھر یہ مسجد میں نہ جانے کا فسانہ کیا ہے ؟
خانۂ رب سے تغافل کا بہانہ کیا ہے ؟
تم ارادہ تو کرو ، راستے گھٹ سکتے ہیں
فاصلے بیچ میں جتنے ہیں سمٹ سکتے ہیں
یہ بھی گر کر نہ سکو ، گھر کے کسی گوشے میں
سجدۂ شکر بجاؤ ، تلاوت کرلو
چھپ کے دنیا کی نگاہوں سے عبادت کرلو
یہ جو بچوں کو ہنسانے کی تمنا ہے تمہیں
اس فسانے کو بھی اک روز حقیقت کر لو
پھینک دو جام و سبو ، ساغر و مینا اپنے
اور روتے ہوئے بچوں سے محبت کر لو
ایک اسکاچ کی قیمت کو بچا کر ، اب کے
کسی نادار کو روٹی تو کھلا سکتے ہو
اپنا فانوس چراغوں سے بدل کر اک دن
طفلِ مفلس کو کھلونے تو دلا سکتے ہو
بیچ کے اپنی لیاقت کے طلائی تمغے
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسا سکتے ہو
گھر سے مسجد ہے اگر دور تو پھر یوں کر لو
کسی ركشہ، کسی ٹم ٹم کی سواری لے لو
کوئی ٹانگہ ہی پکڑ لو ، کوئی لاری لے لو

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے