تیرے سوال کا جواب

ایک بزرگ دریا کے کنارے دنیا سے قدرے ہٹ کر کٹیا میں رہتے تھے، ان کے پاس ایک نوجوان گیاجو حق کا متلاشی تھا اس نے سوال کیا کہ: بابا جی بتائیے بھلا قرآن پاک پڑھنے سے دل کا زنگ کیسے اترتا ہے جبکہ ہمیں سمجھ بھی نہیں آتی؟ بابا جی گہرے استغراق میں گم تھے سنی ان سنی کردی. نوجوان نے پھر سوال کیا جب تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال کیا تو بابا جی نے بیزارگی سے اسے جواب دیتے ہوئے کہا: جا وہاں کونے میں بالٹی پڑی ہے اس میں سے کوئلے نکال کر رکھ دے اور قریب ہی دریا سے پانی بھر کر لا. نوجوان حد ادب کی وجہ سے اپنے سوال کے اس عجیب جواب پر جزبز ہوا مگر احترام حائل تھا لہٍذا خاموشی سے اٹھا اور بالٹی لے کر باہر دریا کی جانب روانہ ہوگیا. کوئلوں کی وجہ سے بالٹی باہر سے چمکدار اور اندر سے سیاہ تھی.
جیسے ہی نوجوان نے دریا سے پانی لیا اور بالٹی اٹھا کر چلا تو یکایک اسے معلوم ہواکہ بالٹی میں سوراخ ہیں جن سے پانی کٹیا تک پہنچتے پہنچتے سارا بہہ گیا. وہ اندر داخل ہوا بابا جی نے سارا ماجرہ سنا اور کہا دوبارہ جا. نوجوان سمجھ گیا کہ بابا جی کی بات میں ضرور کوئی حکمت ہے لہذا بالٹی اٹھائی اور پھر چل پڑا. دوبارہ پانی بھرا مگر پھر وہی ہوا کہ سارا پانی پہنچنے سے پہلے بہہ گیا. بابا جی نے سنا لیکن پھر کمال لاپرواہی سے کہا کہ: جا پھر لا. نوجوان نے اس طرح کئی چکر کاٹے جب تھک گیا تو بابا جی کو کہنے لگا: آپ نجانے کیوں میرے ساتھ یہ سلوک کرر ہے ہیں جبکہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بالٹی میں کسی طرح سے پانی نہیں آ سکتا. اب بابا جی مسکرائے اور کہا: ذرا دیکھ بالٹی کو اندر سے کیا یہ ویسے ہی سیاہ ہے جیسے پہلے چکر میں تو نے اسے دیکھا تھا؟ نوجوان نے بالٹی کو دیکھا اور کہا: نہیں اب تو یہ صاف ہو گئی، اتنی بار پانی جو بھرا ہے اس میں. بابا جی نے شفقت سے مسکراتے ہوئے کہا: پانی نہیں پہنچا لیکن اسکی صفت نے بالٹی کو سیاہ سے سفید کردیا ہے، یہی قرآن پاک کی صفت ہے. پڑھتا جا، پڑھتا جا، پڑھتا جا اسکی صفات تیرے دل کو یونہی زنگ سے صاف کر کے اس دل میں موجود دنیا داری کے سوراخوں سے سارا زنگ بہا لے جائے گی آخر میں دل صاف ستھرا دنیا کی آلائش سے پاک ہوکر تجھے الله سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جوڑدے گا. بس یہی تھا تیرے سوال کا جواب۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے