دھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا.

اور آہستہ کیجئیے باتیں
دھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا
لفظ گِرنے نہ پائیں ہونٹوں سے
وقت کے ہاتھ اِن کو چُن لیں گے
کان رکھتے ہیں یہ دَر و دیوار
راز کی ساری بات سُن لیں گے
ایسے بولو کہ دِل کا افسانہ
دِل سُنے، اور نگاہ دُہرائے
اپنے چاروں طرف کی یہ دُنیا
سانس کا شور بھی نہ سُن پائے
اور آہستہ کیجئیے باتیں
دھڑکنیں کوئی سُن رہا ہو گا.


Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے