حضرت علی رضی اللہ عنہ : خانگی زندگی



حضرت علی رضی اللہ عنہ :
خانگی زندگی
حضرت علی ؓ کی مستقل خانہ داری کی زندگی اس وقت سے شروع ہوئی؛ جبکہ سیدہ جنت حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ ایک علیحدہ مکان میں رہنے لگے،
اس سے پہلے آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے،اس لیے کسب معاش کے لیے آپ کو کسی جدوجہد کی ضرورت نہ پڑتی تھی،
ہجرت کے بعد جب حضرت فاطمہ ؓ سے شادی قرارپائی تو ولیمہ کی فکر دامن گیر ہوئی؛چنانچہ قرب وجوار کے جنگل سے اونٹ پر گھاس لاکر بیچنے کا ارادہ کیا،
حضرت حمزہ ؓ نے ایک روز ان کی اجازت کے بغیر اونٹ کو ذبح کرکے لوگوں کو کھلادیا،
حضرت علی ؓ نے دیکھا تو نہایت صدمہ ہوا،کیونکہ آپ کے پاس صرف دواونٹ تھے،
(ابوداؤد کتاب الخراج والامارۃ باب فی بیان مواضع قسم الخمس)
آخر زرہ بیچ کر سامان کیا، اس زرہ کی قیمت بھی روپیہ سواروپیہ سے زیادہ نہ تھی۔
شادی کے بعد جب علیحدہ مکان میں رہنے لگے تو حصول معاش کی فکر لاحق ہوئی،چونکہ شروع سے اس وقت تک آپ کی زندگی سپاہیانہ کاموں میں بسر ہوئی تھی اس لیے کسی قسم کا سرمایہ پاس نہ تھا،
محنت مزدوری اورجہاد کے مالِ غنیمت پر گزراوقات تھی ،خیبر فتح ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک قطعہ زمین جاگیر کے طورپر عنایت فرمایا، حضرت عمر ؓ نے اپنی خلافت میں باغ فدک کا انتظام بھی ان کے حوالہ کردیا اور دوسرے صحابہ ؓ کی طرح ان کے لیے بھی پانچ ہزار درہم (ایک ہزارروپیہ) سالانہ کا وظیفہ مقرر فرمایا،
خلیفہ ثالث کے بعد جب مسند نشین خلافت ہوئے تو بیت المال سے بقدر کفاف روزینہ مقرر ہوگیا جس پر آخری لمحہ حیات تک قانع رہے۔
مسند کی ایک روایت میں ہے حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھتا تھا اور آج میرا یہ حال ہے کہ چالیس ہزار سالانہ میری زکوٰۃ کی رقم ہوتی ہے۔
(مسند ابن حنبل ج۱ : ۱۵۹)
اس واقعہ میں اورآپ کی عسرت اورفقروفاقہ کی روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، اس لیے کہ آپ کی اس آمدنی کا بڑا حصہ خدا کی راہ میں صرف ہوتا تھا اورتمول کے دور میں بھی ذاتی اورخانگی فقروفاقہ کا وہی عالم رہتا تھا۔
کبھی کبھی خانہ داری کے معاملات میں حضرت فاطمہ ؓ سے رنجش بھی ہوجاتی تھی؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ درمیان میں پڑ کر صفائی کرادیتے تھے، ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے ان پر کچھ سختی کی،وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لے کر چلیں، پیچھے پیچھے حضرت علی ؓ بھی آئے،
حضرت فاطمہ ؓ نے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابیٹی!تم کو خود سمجھنا چاہیے کہ کون شوہر اپنی بی بی کے پاس خاموش چلا آتا ہے؟ حضرت علی ؓ نہایت متاثر ہوئے
اور انہوں نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا اب میں تمہارے خلافِ مزاج کوئی بات نہ کروں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی تو حضرت فاطمہ ؓ کو اس قدر غم ہواکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد صرف چھہ مہینے زندہ رہیں اوراس عرصہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی ان کا دل پثر مردہ شگفتہ نہ ہوا، حضرت علی ؓ بھی ان کی دلدہی اور تسلی کے خیال سے خانہ نشین رہے
اورجب تک وہ زندہ رہیں گھر سے باہر قدم نہ رکھا،حضرت فاطمہ ؓ کے بعد متعدد شادیاں کیں اوران بیویوں سے بھی لطف ومحبت کے ساتھ پیش آئے،
دوسری بیویوں سے جو اولادیں تھیں ان میں حضرت محمد بن حنیفہ ؓ سے بھی نہایت محبت تھی؛
چنانچہ وفات کے وقت حضرت امام حسن ؓ سے ان کے ساتھ لطف ومحبت سے پیش آنے کی خاص طورپر وصیت فرمائی تھی۔
غذا ولباس
حضرت علی ؓ کے غیر معمولی زہد وورع نے ان کی معاشرت کو نہایت سادہ بنادیا تھا،کھانا عموماًروکھا پھیکا کھاتے تھے،عمدہ لباس اور قیمتی لباس سے بھی شو ق نہ تھا،عمامہ بہت پسند کرتے تھے؛
چنانچہ فرمایا کرتے تھے‘‘ العمامۃ یتجان العرب’’ یعنی عمامے عربوں کے تاج ہیں کبھی کبھی سپیدٹوپی بھی پہنتے تھے،کرتے کی آستین اس قدر چھوٹی ہوتی کہ اکثر ہاتھ آدھے کھلے رہتے تھے،
تہبند بھی نصف ساق تک ہوتی تھی کبھی صرف ایک تہبند اورایک چادر ہی پر قناعت کرتے اوراسی حالت میں فرائض خلافت ادا کرنے کے لیے کوڑا لے کر بازار میں گشت کرتے نظر آتے تھے،غرض آپ کو ظاہری طمطراق کا مطلق شوق نہ تھا،پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے،
لوگوں نے اس کے متعلق عرض کیا تو فرمایا یہ دل میں خشوع پیدا کرتا ہےاور مسلمانوں کے لیے ایک اچھا نمونہ ہے کہ وہ اس کی پیروی کریں، بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اوراس پر‘‘اللہ الملک’’ نقش تھا۔
حضرت علی ؓ پر سردی گرمی کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا کیونکہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ٔخیبر میں ان کے لیے دعافرمائی تھی، اللھم اذھب عنہ الحر والبرد یعنی اس سے گرمی وسردی دورکر،اس کا یہ اثر تھا کہ وہ جاڑے کا کپڑا گرمی میں اور گرمی کا کپڑا جاڑے میں زیب تن فرماتے اوراس سےکوئی تکلیف نہ ہوتی۔
(مسند احمد ج ۱ :۹۹)
حلیہ
قدمیانہ،رنگ گندم گوں،آنکھیں بڑی بڑی،چہرہ پررونق وخوبصورت،سینہ چوڑا اس پر بال،بازو اورتمام بدن گٹھا ہوا، پیٹ بڑا اورنکلاہوا، سر میں بال نہ تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ سر کے بال کے نیچے نجاست ہوتی ہے اسی لیے میں بالوں کا دشمن ہوں، ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ کے دوگیسو پڑے دیکھے،مگرزیادہ مشہور یہی ہے کہ آپ کے سر میں بال نہ تھے،ریش مبارک بڑی اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک مونڈے سے دوسرے مونڈھے تک پھیلی تھی،آخر میں بال بالکل سپید ہوگئے تھے اورشاید تمام عمر میں ایک مرتبہ بالوں میں مہندی کا خضاب کیا تھا۔
ازواج واولاد
سیدہ جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ کے بعد جناب مرتضیٰ ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں اور ان سے نہایت کثرت کے ساتھ اولاد ہوئیں،تفصیل حسب ذیل ہے:
حضرت فاطمہ ؓ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں، ان سے ذکور میں حسن،حسین،محسن اور لڑکیوں میں زینب کبریٰ اورام کلثوم کبری ٰپیدا ہوئیں،محسن ؓ نےبچپن ہی میں وفات پائی۔
ام النبین بن حزام: ان سے عباس ،جعفر، عبداللہ اورعثمان پیدا ہوئے، ان میں سے عباس کے علاوہ سب حضرت امام حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔
لیلیٰ بن مسعود: انہوں نے عبید اللہ اورابوبکر کو یادگارچھوڑا؛لیکن ایک روایت کے مطابق یہ دونوں بھی حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ شہید ہوئے۔
اسماء بنت عمیس:ان سے یحییٰ اورمحمد اصغر پیدا ہوئے
صہبا یاام حبیب بنت ربیعہ:یہ ام ولد تھیں،ان سے عمر اوررقیہ پیداہوئیں،عمر نے نہایت طویل عمر پائی اور تقریباً پچاس برس کے سن میں ینبوع میں وفات پائی۔
امامہ بنت ابی العاص:یہ حضرت زینب ؓ کی صاحبزادی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں، ان سے محمد اوسط تولد ہوئے۔
خولہ بنت جعفر:محمد بن علی،جو محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہیں،ان ہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
ام سعید بنت عروہ: ان سے ام الحسن اوررملۂ کبریٰ پیدا ہوئیں۔
محیاۃ بنت امرء القیس:ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی،مگر بچپن ہی میں قضا کر گئی،متذکرہ بالابیویوں کے علاوہ متعدد لونڈیاں بھی تھیں اوران سے حسب ذیل لڑکیاں تولد ہوئیں:
ام ہانی،میمونہ،زینب صغریٰ، رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، فاطمہ، امامہ، خدیجہ ام الکرام ،ام سلمہ، ام جعفر ،جمانہ،نفیسہ۔
غرض حضرت علی ؓ کے سترہ لڑکیاں اورچودہ لڑکے تھے،جن سے سلسلہ نسل جاری رہا،ان کے نام یہ ہیں:
امام حسن،امام حسین ،محمد بن حنفیہ، عمر

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے