ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی منصور کو ہوا لب گویا پیام موت اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی میں انتہائے عشق ہوں تو انتہائے حسن دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں پھر اور کس طرح انہیں دیکھا کرے کوئی اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی نظارے کو بہ جنبش مژگاں بھی بار ہے نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی کھل جائیں کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی علامہ اقبال

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے