Mir Taqi Mir



تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حقِ محبـت ادا ہوا
قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا
وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے نکلے
ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا
حیراں رنگِ باغ جہاں تھا بہت رُکا
تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا
! عالم کی بے فضائی سے تنگ آگئے تھے ہم
جاگہ سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا !
در پے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے
انجام کار مدعی کا مدعا ہوا
اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھئے
جیسے کوئی کسو کا نگر ہو لٹا ہوا
بدتر ہے زیست مرگ سے ہجرانِ یار میں
بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا
کہتا تھا میر حال تو جب تک تو تھا
بھلا کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے