Mir Taqi Mir
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے اس خبر سے
سوبار ہم تو تم بن گھر چھوڑ چھوڑ نکلے
تم ایک بار یاں تک آئے نہ اپنے گھر سے
چھاتی کہ جلنے کی ہے شاید کہ آگ سلگے
اٹھنے لگا دھواں اب میرے دل و جگر سے
نکلا سو سب چلا ہے نومید ہی چلا ہے
اپنا نہالِ خواہش برگ و گل و ثمر سے
جھڑ باندھنے کا ہم بھی دینگے دکھا تماشا
ٹک ابر قبلہ آ کر آگے ہماری بر سے
سو نامہ بر کبوتر کر ذبح اُن نے کھائے
خط چاک اڑے پھرے ہیں اس کی گلی میں پر سے
آخر گرسنہ چشمِ نظارہ ہو گئے ہم
ٹک دیکھنے کو اسکی برسوں مہینوں ترسے
اپنا وصول مطلب اور ہی کسو سے ہو گا
منزل پہونچ رہیں گے ہم ایسی رہ گزر سے
سردے دے مارتے ہیں ہجراں میں میر صاحب
یارب چھڑا تو ان کو چاہت کے دردِ سر سے
م
Comments
Post a Comment