Mir Taqi Mir

عشق میں بے خوف و خطر چاہئے جان کے دینے کو جگر چاہئے قابلِ آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں واقعہ اک شام و سحر چاہئے حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے اٹھتے پلک، ایک پہر چاہئے کم ہیں شناسائے زرِ داغِ دل اس کے پرکھنے کو نظر چاہئے جیسے جرس، پارہ گلو کیا کروں نالہ و فغاں میں اثر چاہئے خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر ہم کو جیا بارِ دگر چاہئے م

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے