Mir Taqi Mir

کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق جان کا روگ ہے بلا ہے عشق درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق عشق معشوق، عشق عاشق ہے یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق عشق ہے طرز و طور، عشق کے تئیں کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق کون مقصد کو عشق بن پہنچا آرزو عشق و مدّعا ہے عشق کوئی خواہاں نہیں محبت کا تو کہے جنسِ ناروا ہے عشق تو نہ ہووے تو نظمِ کُل اٹھ جائے سچے ہیں شاعراں خدا ہے عشق میر جی زرد ہوتے جاتے ہیں کیا کہیں تُم نے بھی کیا ہے عشق؟ م

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے