یہاں اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا رنج، راحت فزا نہیں ہوتا تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا اس نے کیا جانے، کیا کیا لے کر دل کسی کام کا نہیں ہوتا نا رسائی سے دم رکے تو رکے میں کسی سے خفا نہیں ہوتا تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا رحم کر، خصمِ جانِ غیر نہ ہو سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا چارہء دل سوائے صبر نہیں سو تمھارے سوا نہیں ہوتا کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن صنم آخر خدا نہیں ہوتا مومن خان مومن

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے