Mir Taqi Mir

تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد ہرطرف ہیں اسیر ہم آواز باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے اپنی قیدِ حیات سے آزاد ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد نقش صورت پذیر نہیں اس کا یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد خوب ہے خاک سے بزرگاں کی چاہنا تو مرے تئیں امداد پر مروّت کہاں اسے اے میر تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد نامرادی ہو جس پہ پروانہ وہ جلاتا پھرے چراغِ مراد م

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے