Mir Taqi Mir

مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں کیا کریے یاں نہیں ہے جنسِ وفا کی خواہش خونِ جگر ہی کھانا آغازِ عشق میں ہے رہتی ہے اس مرض میں پھر کب غذا کی خواہش وہ شوخ دشمنِ جاں، اے دل تُو اس کا خواہاں کرتا ہے کوئی ظالم ایسی بلا کی خواہش میرے بھی حق میں کر ٹک ہاتھوں کو میر اونچا رکھتا ہے اہلِ دل سے ہر یک دعا کی خواہش

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے