Mir Taqi Mir

میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی خاطرِ بادیہ سے دیر میں جاوے گی کہیں خاک مانند بگولے کے اڑانی اس کی ایک ہے عہد میں اپنے وہ پراگندہ مزاج اپنی آنکھوں میں نہ آیا کوئی ثانی اس کی مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی کر کے تعویذ رکھیں اس کو بہت بھاتی ہے وہ نظر پاؤں پہ وہ بات دوانی اس کی اس کا وہ عجز تمھارا یہ غرورِ خوبی منتیں ان نے بہت کیں پہ نہ مانی اس کی کچھ لکھا ہے تجھے ہر برگ پہ اے رشکِ بہار رقعہ واریں ہیں یہ اوراق خزانی اس کی سر گذشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیے لوگوں کو شہر دلّی میں ہے سب پاس نشانی اس کی میان سے نکلی ہی پڑتی تھی تمھاری تلوار کیا عوض چاہ کا تھا خصمیِ جانی اس کی آبلے کی سی طرح ٹھیس لگی، پھوٹ بہے درد مندی میں گئی ساری جوانی اس کی اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے