جن پر ستم تمام قفس کی فضا کے تھے مجرم وہ لوگ اپنی شکستِ انا کے تھے اے دشتِ خار! ہم سے حسابِ کرم نہ مانگ پاؤں میں آبلے تھے مگر اِبتداء کے تھے لب پر سجا لئے تھے یونہی اجنبی سے نام دل میں تمام زخم کسی آشنا کے تھے پتّوں سے بھر رہے تھے ہواؤں کی جھولیاں گِرتے ہوئے شجر بھی سخی اِنتہا کے تھے گہرے سمندروں میں کہاں عکسِ آسماں پانی میں جتنے رنگ تھے سارے خلا کے تھے اب دھول اوڑھنا بھی میسّر نہیں جنہیں وارث وہ اہلِ دل کبھی ارض و سما کے تھے جن سے الجھ رہی تھیں ہواؤں کی شورشیں محسن وہ دائرے تو میرے نقشِ پا کے تھے

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے