میں ان سب سے مخاطب ہوں جو پچھلی رات کو دیکھا ہوا ہر خواب دن میں یاد رکھتے ہیں خود اپنے آپ پر تازہ ستم ایجاد رکھتے ہیں میں ان سے بھی مخاطب ہوں کہ جن کا خواب انکی آرزو کا استعارہ ہے تمنا کے فلک پر جگمگاتا اک ستارہ ہے جو اپنے خواب کی تصویر میں تحریر رہتے ہیں سدا زنجیر رہتے ہیں کہ جیسے میں جو خود بھی خواب بنتا ہوں میں جو بھی چاہتا ہوں پہلے اس کو خواب میں تصویر کرتا ہوں پھر اپنے آپ کو اس میں تحریر کرتا ہوں پھر اس تحریر کو تعبیر دینے دن میں آتا ہوں اور اپنی عمر کے سب دن میں ایسے دن میں رہتا ہوں جو اپنی شام سے محروم رہتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے