یہ جہاں ہے ایک عالم، ایک عالم اور ہے اِک شبِ غم کاٹ لی ہے، اِک شبِ غم اور ہے تم فقط دوزخ چشیدہ ہو نہیں سمجھو گے تم اور ہے نارِ حسد، نارِ جہنم اور ہے ایک سیپی آسماں تو دو صدف آنکھیں بھی ہیں ہے گہربار اور شبنم آنکھ پُرنم اور ہے اور ہیں موتی، گِرا کر پھر اُٹھا سکتے ہو تم باغ میں وقت ِسحر پھولوں پہ شبنم اور ہے بال کھولے اُس نے ، جیسے بحرِ اسود کھل گیا ایک خم کی لہر سے نکلوں تو اِک خم اور ہے بحر کا طوفاں الگ ہے، برہمی اُس کی الگ لہر کا خم اور اُس کی زلف کا خم اور ہے کچھ دریچے پر بھی بارش کی بہت بوندیں پڑیں آج تیری یاد میں کچھ آنکھ بھی نم اور ہے کچھ چھپا رکھا ہے چہرہ اُس نے بالوں میں عدیم کچھ دیئے کی لَو ذرا سی آج مدھم اور ہے آج اُس کی سمت دیکھا ہی نہیں جاتا عدیم آج کیفیت الگ ہے، آج عالم اور ہے

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے