وفا سا قیمتی گوہر لٹا کر لوٹ آیا ہوں
کسی کے ظرف کی حد آزما کر لوٹ آیا ہوں
بجھی آنکھوں میں اب صحرا‘ بسے یا خواب یا بادل
میں ہر امید اشکوں میں بہا کر لوٹ آیا ہوں
اچانک ہی مسیحا کی حقیقت کھل گئی مجھ پر
میں رستے زخم سینے سے لگا کر لوٹ آیا ہوں
وہ اک سپنا کہ جس کی چاہ میں اک عمر جاگا تھا
اسی سپنے سے اب نظریں چرا کر لوٹ آیا ہوں
کہاں سودا سمایا تھا کہ منزل تک پہنچنا ہے
کہاں منزل کو پھر نزدیک پا کر لوٹ آیا ہوں
مجھے اسکو بتانا تھا میں اس بن جی نہیں سکتا
مگر یہ بات ہونٹوں میں دبا کر لوٹ آیا ہوں
بہت ہی زعم تھا ناصح کو اپنی پارسائی پر
اسے میں سچ کا آئینہ دکھا کر لوٹ آیا ہوں
کسی کی راہ میں آنکھیں جلائیں دل جلا ڈالا
پھر انکی راکھ ساگر میں بہا کر لوٹ آیا ہوں
مجھے اب عمر ساری دشتِ حیراں میں بھٹکناہے
پلٹ جانے کا ہر نقشہ مٹا کر لوٹ آیا ہوں
یہ دل پر منکشف ہے کہ جدا ہے اسکا ہر رستہ
مگر پھر دل کی ہی باتوں میں آکر لوٹ آیا ہوں
اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے
اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے کچھ پا کر کھونا ھے ، کچھ کھو کر پانا ھے جیون کا مطلب تو ، آنا اور جانا ھے دو پل کے جیون سے ، اک عمر چرانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے تو دھار ہے ندیا کی ، میں تیرا کنارا ھوں تو میرا سہارا ھے ، میں تیرا سہارا ھوں آنکھوں میں سمندر ھے ، آشاؤں کا پانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے طوفان تو آنا ھے ، آ کر چلے جانا ھے بادل ھے یہ کچھ پَل کا ، چھا کر ڈھل جانا ھے پرچھائیاں رہ جاتیں ، رہ جاتی نشانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں ، تیری میری کہانی ھے جو دل کو تسلی دے، وہ ساز اٹھا لاؤ دم گُھٹنے سے پہلے ھی ، آواز اٹھا لاؤ خوشیوں کا ترنم ھے ، اشکوں کی زبانی ھے زندگی اور کچھ بھی نہیں، تیری میری کہانی ھے "سنتوش آنند"
Comments
Post a Comment