ہاتھ دیا اس نے مِرے ہاتھ میں میں تو ولی بن گیا اِک رات میں عشق کرو گے تو کماؤ گے نام تُہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں عشق بُری شے سہی پر دوستو دخل نہ دو تم مری ہر بات میں مجھ پہ توجہ ہے سب آفات کی کوئی کشش تو ہے مری ذات میں راہنما تھا مرا اِک سامری کھو گیا میں شہر طلِسمات میں مجھ کو لگا عام سا اِک آدمی آیا وہ جب کام کے اوقات میں شام کی گلرنگ ہوا کیا چلی درد مہکنے لگا جذبات میں ہاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں ربط بڑھایا نہ قتیل اس لیے فرق تھا دونوں کے خیالات میں

Comments

Popular posts from this blog

اک پیار کا نغمہ ھے ، موجوں کی روانی ھے

" جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں

مائیں نی مائیں میرے گیتاں دے نیناں وچ ـــــ برہوں دی رڈک پوے