اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار
اب تو اٹھ سکتا نہیں آنکھوں سے بار انتظار
کس طرح کاٹے کوئی لیل و نہار انتظار
ان کی الفت کا یقیں ہو ان کے آنے کی امید
ہوں یہ دونوں صورتیں تو ہے بہار انتظار
جان و دل کا حال کیا کہیے فراق یار میں
جان مجروح الم ہے ، دل فگار انتظار
میری آہیں نارسا ، میری دعائیں نا قبول
یا الہی کیا کروں میں شرمسار انتظار
آن کے خط کی آرزو ہے ، ان کا آمد کا خیال
کس قدر پھیلا ہوا ہے کاروبار انتظار
ہے دل مسرور حسرت اک طرب زار امید
پھونک ڈالے گر نہ اس گلشن کو نار انتظار
Comments
Post a Comment